سیرت النبی ﷺ پارٹ 12 — صلح حدیبیہ: صبر، حکمت اور ایمان کی سب سے بڑی فتح
غزوہ خندق کے بعد مدینہ میں سکون قائم ہو چکا تھا۔
کفارِ مکہ کی طاقت ٹوٹ چکی تھی۔
اب اسلام کا پیغام عرب کے ہر کونے میں پہنچنے لگا۔
یہ سن 6 ہجری کا زمانہ تھا۔ نبی کریم ﷺ نے خواب میں دیکھا کہ آپ اور صحابہ کرامؓ احرام باندھے کعبہ شریف کا طواف کر رہے ہیں۔
آپ ﷺ نے صحابہؓ کو یہ خواب سنایا اور فرمایا:
“میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ ہم ان شاءاللہ امن کے ساتھ عمرہ کریں گے۔”
یہ خواب دراصل اللہ کی طرف سے بشارت تھی۔
عمرہ کا ارادہ اور روانگی
نبی ﷺ نے مدینہ میں اعلان فرمایا کہ ہم عمرہ کے لیے جا رہے ہیں — جنگ کے لیے نہیں۔
آپ ﷺ نے صرف احرام کی حالت میں عمرہ کی نیت فرمائی۔
تقریباً 1,400 صحابہؓ آپ کے ساتھ روانہ ہوئے۔
سب کے ہاتھوں میں تلواریں تھیں مگر نیام میں بند تھیں، تاکہ دشمن سمجھے کہ مقصد جنگ نہیں، بلکہ عبادت ہے۔
آپ ﷺ نے 70 اونٹ قربانی کے لیے ساتھ لیے۔
یہ قافلہ ذوالحلیفہ (آج کا مقام مسجدِ شجرہ) سے احرام باندھ کر مکہ کی سمت روانہ ہوا۔
مکہ کے قریب پہنچنے پر رکاوٹ
جب قریش کو خبر ملی کہ محمد ﷺ اور ان کے ساتھی عمرہ کے ارادے سے آ رہے ہیں،
تو وہ گھبرا گئے۔
انہوں نے کہا: “اگر یہ لوگ مکہ میں داخل ہو گئے تو عرب سمجھے گا کہ مکہ والوں نے کمزوری دکھائی۔”
چنانچہ قریش نے لشکر تیار کیا اور مکہ کے قریب حدیبیہ کے مقام پر خیمہ زن ہو گئے۔
انہوں نے اعلان کیا: “محمد ﷺ کو مکہ میں داخل نہیں ہونے دیں گے!”
نبی ﷺ نے فرمایا:
“ہم لڑنے نہیں آئے، عبادت کے لیے آئے ہیں۔ اگر وہ اجازت دیں تو خیر، ورنہ ہم واپس چلے جائیں گے۔”
حدیبیہ میں قیام
جب قافلہ حدیبیہ کے مقام پر پہنچا تو اونٹ رک گیا۔
صحابہؓ نے کہا: “اونٹ تھک گیا ہے!”
نبی ﷺ نے فرمایا:
“نہیں، اسے اسی ذات نے روک دیا ہے جس نے ہاتھیوں کو مکہ میں داخل ہونے سے روکا تھا!”
یوں آپ ﷺ نے وہیں قیام فرمایا۔
پانی کی قلت تھی۔
آپ ﷺ نے ایک خالی کنویں میں اپنا تیر ڈالا،
اور اللہ کے حکم سے پانی پھوٹ نکلا۔
یہ اللہ کی طرف سے ایک کرامت تھی۔
مذاکرات کا آغاز
قریش نے مختلف نمائندے بھیجے — کبھی بدیل بن ورقاء، کبھی عروہ بن مسعود۔
ہر ایک آیا، بات کی، مگر نتیجہ نہ نکلا۔
عروہ بن مسعود نے دیکھا کہ صحابہ ﷺ کے ادب سے کیسے پیش آتے ہیں —
اگر نبی ﷺ وضو کرتے تو ان کا پانی زمین پر گرنے نہیں دیتے۔
وہ سمجھ گیا کہ “یہ لوگ کبھی آپ ﷺ کو تنہا نہیں چھوڑیں گے۔”
حضرت عثمانؓ مکہ بھیجے گئے
آخرکار نبی ﷺ نے حضرت عثمان بن عفانؓ کو بطور سفیر مکہ بھیجا۔
انہیں قریش کے سرداروں سے ملاقات کا حکم دیا تاکہ بتایا جائے کہ ہم صرف عبادت کے لیے آئے ہیں۔
لیکن مکہ میں یہ افواہ پھیل گئی کہ عثمانؓ کو قتل کر دیا گیا ہے۔
یہ خبر مدینہ کے لشکر تک پہنچی تو فضا بدل گئی۔
نبی ﷺ نے ایک درخت کے نیچے صحابہؓ کو جمع کیا اور فرمایا:
“ہم اللہ کے نام پر اس وقت تک نہیں لوٹیں گے جب تک بدلہ نہ لیں!”
سب نے ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیعت کی —
یہ تھی بیعتِ رضوان۔
قرآن نے اس موقع کو عظیم الفاظ میں یاد کیا:
“لَقَدْ رَضِيَ اللَّهُ عَنِ الْمُؤْمِنِينَ إِذْ يُبَايِعُونَكَ تَحْتَ الشَّجَرَةِ”
(الفتح: 18)
“اللہ مؤمنوں سے راضی ہو گیا جب وہ درخت کے نیچے تم سے بیعت کر رہے تھے۔”
قریش کا وفد اور معاہدہ
اسی دوران قریش نے حضرت عثمانؓ کو رہا کیا اور اپنے نمائندے سہیل بن عمرو کو نبی ﷺ کے پاس بھیجا تاکہ صلح کی شرائط طے کی جائیں۔
نبی ﷺ نے فرمایا:
“اللہ آسانی کے دروازے کھولنے والا ہے، چلو صلح کرتے ہیں۔”
معاہدۂ حدیبیہ کی شرائط
دس سال کے لیے جنگ بندی ہوگی۔
اگر کوئی قریش کا شخص اسلام قبول کر کے مدینہ جائے، واپس کر دیا جائے گا۔
اگر کوئی مسلمان مکہ واپس جائے تو واپس نہیں کیا جائے گا۔
اس سال مسلمان عمرہ نہیں کریں گے، بلکہ اگلے سال مکہ آئیں گے۔
قریش اور مسلمانوں میں جو قبیلہ چاہے، کسی ایک فریق سے اتحاد کر سکتا ہے۔
بظاہر سخت مگر حقیقت میں عظیم معاہدہ
یہ شرائط بظاہر مسلمانوں کے لیے نقصان دہ لگ رہی تھیں۔
کئی صحابہؓ کے دلوں میں سختی محسوس ہوئی، خاص طور پر حضرت عمرؓ نے عرض کیا:
“یا رسول اللہ ﷺ! کیا ہم حق پر نہیں ہیں؟ پھر یہ دباؤ کیوں قبول کریں؟”
نبی ﷺ نے فرمایا:
“میں اللہ کا رسول ہوں، وہی میرا مددگار ہے، میں اس کی نافرمانی نہیں کرتا۔”
یہ صبر، ایمان اور تدبیر کی اعلیٰ مثال تھی۔
قربانی اور واپسی
معاہدہ کے بعد نبی ﷺ نے فرمایا:
“ہمیں مکہ میں داخل ہونے کی اجازت نہیں، لہٰذا قربانی یہیں ذبح کر دو۔”
صحابہؓ تھوڑے اداس تھے، مگر جب آپ ﷺ نے خود قربانی کی اور سر منڈوایا،
سب نے اتباع کیا۔
یہی دراصل اللہ کے حکم پر سرِ تسلیم خم کرنا تھا۔
قرآن میں نازل ہوا:
“إِنَّا فَتَحْنَا لَكَ فَتْحًا مُّبِينًا”
(الفتح: 1)
“ہم نے تمہیں ایک کھلی ہوئی فتح عطا کی۔”
یہی وہ صلح تھی جسے فتحِ مبین (واضح کامیابی) کہا گیا۔
صلح کے بعد کے اثرات
صلح حدیبیہ کے بعد امن قائم ہوا۔
اب جنگ کا خوف کم ہوا اور اسلام تیزی سے پھیلنے لگا۔
ان دو سالوں میں جتنے لوگ مسلمان ہوئے،
وہ تمام پچھلے سالوں سے زیادہ تھے۔
یہ صلح دراصل دعوتِ اسلام کے لیے دروازے کھولنے کا ذریعہ بن گئی۔
اب لوگ بلا خوف و خطر مدینہ آتے،
نبی ﷺ سے ملتے، قرآن سنتے، اور اسلام قبول کرتے۔
قرآن کا پیغام
“هُوَ الَّذِي أَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَىٰ وَدِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ”
(الفتح: 28)
“اللہ ہی ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دینِ حق کے ساتھ بھیجا تاکہ اسے تمام دینوں پر غالب کرے۔”
معاہدہ کی آزمائش — ابو جندل کا واقعہ
صلح کے فوراً بعد ایک نوجوان ابو جندلؓ زنجیروں میں جکڑے مکہ سے بھاگ کر آئے۔
وہ اپنے باپ سہیل بن عمرو کے بیٹے تھے، جو ابھی معاہدے پر دستخط کر رہا تھا۔
سہیل نے کہا: “ہم نے معاہدہ کر لیا ہے، اس کے مطابق اسے واپس کرنا ہوگا!”
نبی ﷺ نے صبر کیا، فرمایا:
“ابو جندل! صبر کرو، اللہ تمہیں اور تمہارے جیسے مظلوموں کو جلد راستہ دے گا۔”
یہ لمحہ ایمان، ضبط اور صبر کی سب سے بڑی مثال بن گیا۔
فتحِ مبین کے نتائج
قریش نے پہلی بار مسلمانوں کو ایک ریاست کے طور پر تسلیم کیا۔
عرب قبائل نے اسلام کو طاقتور اور منظم دین مانا۔
تبلیغ کے دروازے کھلے۔
اگلے دو سال میں اسلام پورے عرب میں پھیل گیا۔
اگلے مرحلے کی تیاری
صلح کے بعد نبی ﷺ نے دیگر بادشاہوں کو دعوتِ اسلام کے خطوط بھیجے۔
رومی، ایرانی اور مصری حکمرانوں کو بھی اسلام کی دعوت پہنچی۔
اسی دوران شمال میں موجود یہودی قبائل — خاص طور پر خیبر کے علاقے کے لوگ —
مسلمانوں کے خلاف سازشیں کرنے لگے۔
وہ قریش سے خفیہ رابطے میں تھے۔
لہٰذا اب نبی ﷺ نے فیصلہ فرمایا کہ
اگلا قدم خیبر کی طرف ہوگا — تاکہ اسلام کے دشمنوں کا آخری گڑھ ختم کیا جا سکے۔
اختتامیہ — سبق اور پیغام
صلح حدیبیہ ہمیں سکھاتی ہے کہ:
صبر اور حکمت کبھی نقصان نہیں دیتی۔ اللہ پر بھروسہ کرنے والا کبھی ذلیل نہیں ہوتا ۔
دشمن کے ساتھ بھی انصاف اور وعدے کی پاسداری ایمان کا حصہ ہے۔
بظاہر کمزوری دراصل ایمان کی طاقت بن جاتی ہے۔
یہی وہ معاہدہ تھا جس نے اسلام کو عرب کی سرزمین سے دنیا کے نقشے پر پھیلنے کی راہ دی۔
اگلی قسط (پارٹ 13):
ان شاءاللہ اگلے حصے میں پڑھیں گے:
غزوہ خیبر کی مکمل داستان —
کہ کیسے نبی ﷺ نے صلح حدیبیہ کے بعد
یہودیوں کی سازشوں کا خاتمہ کیا،
اور اسلام کے دشمنوں پر فیصلہ کن فتح حاصل کی۔
سیرت النبی ﷺ (پارٹ1) پڑھنے کے لیے یہ لنک وزٹ کریں
سیرت النبی ﷺ (پارٹ2)پڑھنے کے لیے یہ لنک وزٹ کریں
سیرت النبی ﷺ (پارٹ3) پڑھنے کے لیے یہ لنک وزٹ کریں
سیرت النبی ﷺ (پارٹ4) پڑھنے کے لیے یہ لنک وزٹ کریں
سیرت النبی ﷺ (پارٹ5) پڑھنے کے لیے یہ لنک وزٹ کریں
سیرت النبی ﷺ (پارٹ6) پڑھنے کے لیے یہ لنک وزٹ کریں
سیرت النبی ﷺ (پارٹ7) پڑھنے کے لیے یہ لنک وزٹ کریں
سیرت النبی ﷺ (پارٹ8) پڑھنے کے لیے یہ لنک وزٹ کریں
سیرت النبی ﷺ (پارٹ9) پڑھنے کے لیے یہ لنک وزٹ کریں
سیرت النبی ﷺ (پارٹ10) پڑھنے کے لیے یہ لنک وزٹ کریں
سیرت النبی ﷺ (پارٹ11) پڑھنے کے لیے یہ لنک وزٹ کریں

0 تبصرے