سیرت النبی ﷺ پارٹ 14 غزوہ مؤتہ کی مکمل تفصیل | اسلام کی پہلی بین الاقوامی جنگ اور صحابہؓ کی قربانیاں


سیرت النبی ﷺ, غزوہ مؤتہ, اسلامی تاریخ, رومی سلطنت, حضرت جعفر طیارؓ, اسلامی فتوحات


اسلامی تاریخ میں غزوہ مؤتہ وہ عظیم معرکہ ہے جو مکہ کی فتح سے پہلے پیش آیا۔

یہ وہ لمحہ تھا جب مسلمان پہلی بار عرب سے باہر، رومی سلطنت جیسے طاقتور دشمن سے ٹکرائے۔

یہ جنگ نہ صرف بہادری بلکہ ایمان، قربانی اور اللہ پر یقین کا مظہر تھی۔

پس منظر

  رومی سلطنت سے پہلا رابطہ 

صلح حدیبیہ کے بعد نبی کریم ﷺ نے مختلف ملکوں کے بادشاہوں کو اسلام کی دعوتی خطوط بھیجے۔

ان میں سے ایک خط حارث بن عمیرؓ ازدی کے ہاتھ شام کے علاقے میں بصرٰی کے بادشاہ کے پاس بھیجا گیا۔

جب وہ مؤتہ (اردن کے قریب) کے علاقے سے گزرے تو غسانی حاکم شرحبیل بن عمرو نے انہیں گرفتار کر کے قتل کر دیا۔

یہ اسلامی تاریخ میں پہلا سفیر تھا جسے سرکاری حیثیت میں قتل کیا گیا۔

یہ عمل سفارتی اور انسانی لحاظ سے بہت بڑا جرم تھا۔

نبی ﷺ کو جب یہ خبر ملی تو آپ کے چہرے پر غم اور عزم دونوں نظر آئے،

اور آپ ﷺ نے فوراً لشکر کی تیاری کا حکم دیا۔

 لشکر کی تیاری 

نبی ﷺ نے 3000 مجاہدین پر مشتمل لشکر تیار فرمایا 

یہ اسلامی تاریخ کا سب سے بڑا لشکر تھا جو مدینہ سے باہر روانہ ہو رہا تھا۔

آپ ﷺ نے فرمایا:

“تم مؤتہ جاؤ جہاں حارث بن عمیرؓ کو شہید کیا گیا۔ وہاں کے لوگوں کو اسلام کی دعوت دو، اگر نہ مانیں تو قتال کرو۔”

 جھنڈا اور سپہ سالار: 

حضرت زید بن حارثہؓ — پہلا سپہ سالار

 حضرت جعفر بن ابی طالبؓ — اگر زیدؓ شہید ہو جائیں

 حضرت عبداللہ بن رواحہؓ — تیسرے کمانڈر

آپ ﷺ نے فرمایا:

“اگر یہ تینوں شہید ہو جائیں تو مسلمان آپس میں کسی کو امیر بنا لیں۔”

 مدینہ سے روانگی 

لشکر روانہ ہونے لگا تو لوگ مدینہ کے باہر جمع ہو گئے۔

سب لوگ اپنے عزیزوں کو رخصت کر رہے تھے۔

حضرت عبداللہ بن رواحہؓ کی آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے۔

کسی نے پوچھا: “آپ کیوں رو رہے ہیں؟”

فرمایا: “مجھے موت کا نہیں، اس حساب کا خوف ہے جو اللہ کے حضور دینا ہے۔”

نبی ﷺ نے دعا فرمائی:

“اللّٰهُمَّ أَنْتَ الصَّاحِبُ فِي السَّفَرِ وَالْخَلِيفَةُ فِي الْأَهْلِ”

 مؤتہ پہنچنا اور دشمن کی تیاری 

جب اسلامی لشکر مؤتہ کے قریب پہنچا تو خبر ملی کہ

رومی سلطنت کے سپاہیوں اور عرب غسانیوں کا ایک عظیم لشکر جمع ہو چکا ہے۔

روایات کے مطابق:

دشمن کی تعداد ایک لاکھ سے دو لاکھ کے درمیان تھی۔ مسلمان صرف تین ہزار تھے۔ 

یہ منظر دیکھ کر کچھ صحابہؓ نے مشورہ دیا کہ مدینہ واپس جا کر نبی ﷺ کو اطلاع دی جائے۔

لیکن حضرت عبداللہ بن رواحہؓ نے فرمایا:

“ہم دشمن کی کثرت سے نہیں، ایمان کی طاقت سے لڑتے ہیں۔

یا تو فتح یا شہادت — یہی ہمارا انجام ہے!”

 جنگ کا آغاز — حضرت زیدؓ کا کردار 

حضرت زید بن حارثہؓ نے جھنڈا لیا اور

“اللّٰهُ أَكْبَر” کہہ کر دشمن پر حملہ کیا۔

دونوں فوجوں میں زبردست معرکہ ہوا۔

تیر، نیزے اور تلواروں کی بارش ہونے لگی۔

حضرت زیدؓ دشمن کے بیچوں بیچ جا کر لڑے اور شہید ہو گئے۔

دوسرا مرحلہ — حضرت جعفر بن ابی طالبؓ 

جھنڈا حضرت جعفر طیارؓ نے سنبھالا۔

وہ گھوڑے سے اتر آئے اور کہنے لگے:

“میں چاہتا ہوں کہ میرا خون زمین پر نہ گرے، بلکہ اللہ کی راہ میں بہے۔”

ان کے دائیں ہاتھ پر جھنڈا تھا — کٹا،

پھر بائیں ہاتھ میں لیا — وہ بھی کٹ گیا،

آخرکار بازوؤں کے درمیان جھنڈا تھامے شہید ہو گئے۔

ان کے جسم پر 90 سے زائد زخم پائے گئے —

سب سامنے سے، یعنی وہ کبھی پیٹھ نہیں دکھائی۔

اسی لیے انہیں “جعفر طیار” کہا گیا —

اللہ نے انہیں جنت میں دو پر عطا فرمائے جن سے وہ اڑتے ہیں۔

(حوالہ: صحیح بخاری 3709)

 تیسرا مرحلہ — حضرت عبداللہ بن رواحہؓ 

اب جھنڈا عبداللہ بن رواحہؓ کے ہاتھ میں تھا۔

وہ لمحہ بھر رکے، مگر فوراً فرمایا:

“اے نفس! تو کیوں گھبرا رہا ہے؟ قسم ہے، تو ضرور جنت میں داخل ہوگا!”

یہ کہہ کر دشمن پر ٹوٹ پڑے اور بہادری سے لڑتے ہوئے شہید ہو گئے۔

 قیادت حضرت خالد بن ولیدؓ کے سپرد 


تینوں مقررہ سپہ سالار شہید ہو چکے تھے۔

مسلمان گھبرا گئے اب کیا ہو گا پھر کچھ صحابہ کرام نے دیکھا 

خالد بن ولید دشمن کے ساتھ ڈٹ کر مقابلہ کر رہے ہیں 

اب مسلمانوں نے باہمی مشورے سے حضرت خالد بن ولیدؓ کو امیر منتخب کیا۔

یہ پہلا موقع تھا کہ وہ کسی جنگ میں اسلامی فوج کے سپہ سالار بنے۔

انہوں نے حکمت اور بہادری سے ایسی قیادت دکھائی کہ

اسلامی لشکر شکست سے بچ گیا۔

 حضرت خالد بن ولیدؓ کی جنگی حکمت عملی 

دشمن کو مغالطہ دینا:

اگلے دن لشکر کی صفیں بدل دیں —

پیچھے والے آگے، آگے والے پیچھے تاکہ دشمن سمجھے نئی فوج آ گئی ہے۔

رات کے وقت انخلا:

رات کے اندھیرے میں مسلمانوں کو منظم طریقے سے پیچھے ہٹایا

اور دشمن کو گمان ہوا کہ مسلمان گھات لگا رہے ہیں۔

یوں مسلمان محفوظ طور پر واپس مدینہ پہنچ گئے —

نہ پسپائی تھی نہ شکست، بلکہ حکمت سے کامیاب واپسی۔

 مدینہ واپسی 

جب لشکر مدینہ پہنچا تو کچھ لوگوں نے کہا:

“اے بھاگنے والوں کا لشکر!”

نبی ﷺ نے فرمایا:

“نہیں، یہ بھاگنے والے نہیں،

بلکہ اللہ کے سپاہی ہیں جو دوبارہ لڑنے آئیں گے!”

 شہداء کی عظمت 

نبی ﷺ کو وحی کے ذریعے خبر ملی کہ

زیدؓ، جعفرؓ، اور عبداللہ بن رواحہؓ شہید ہو گئے ہیں۔

آپ ﷺ کے چہرے پر آنسو بہہ رہے تھے،

اور آپ فرما رہے تھے:

“زیدؓ نے جھنڈا اٹھایا، پھر شہید ہوا۔

جعفرؓ نے لیا، وہ بھی شہید ہوا۔

ابن رواحہؓ نے لیا، وہ بھی شہید ہوا۔

پھر اللہ نے خالدؓ کے ہاتھوں مسلمانوں کو بچایا۔”

 غزوہ مؤتہ کے نتائج 

 اسلام کا پیغام رومی سلطنت تک پہنچا۔

مسلمانوں نے پہلی بار بین الاقوامی سطح پر جنگ لڑی۔

حضرت خالدؓ کو "سیف اللہ" (اللہ کی تلوار) کا لقب ملا۔

 شہداء کی قربانی نے ایمان کو مزید مضبوط کیا۔

رومی طاقتوں کو اندازہ ہوا کہ مسلمانوں کی روحِ جہاد ناقابل شکست ہے۔

 اخلاقی اسباق ایمان دشمن کی کثرت کو نہیں دیکھتا۔ اللہ پر یقین ہر خوف کو مٹا دیتا ہے۔ قیادت میں تدبر، صبر اور قربانی ضروری ہیں۔ شہادت، مومن کی سب سے بڑی کامیابی ہے 🕋 اختتامیہ 

غزوہ مؤتہ اسلام کی تاریخ کا وہ موڑ تھا جس نے آنے والی فتوحات کی بنیاد رکھی۔

اسی جنگ کے بعد رومی سلطنت نے مسلمانوں کو سنجیدگی سے لینا شروع کیا۔

یہ معرکہ بتاتا ہے کہ ایمان، عزم اور قربانی سے ناممکن بھی ممکن ہو جاتا ہے۔


اگلی قسط (پارٹ 15): 


غزوہ تبوک  رومیوں کے خلاف سب سے بڑی مہم اور ایمان کا امتحان

سیرت النبی ﷺ (پارٹ1) پڑھنے کے لیے یہ لنک وزٹ کریں

سیرت النبی ﷺ (پارٹ2) پڑھنے کے لیے یہ لنک وزٹ کریں

سیرت النبی ﷺ (پارٹ3) پڑھنے کے لیے یہ لنک وزٹ کریں

سیرت النبی ﷺ (پارٹ4) پڑھنے کے لیے یہ لنک وزٹ کریں

سیرت النبی ﷺ (پارٹ5) پڑھنے کے لیے یہ لنک وزٹ کریں

سیرت النبی ﷺ (پارٹ6) پڑھنے کے لیے یہ لنک وزٹ کریں

سیرت النبی ﷺ (پارٹ7) پڑھنے کے لیے یہ لنک وزٹ کریں

سیرت النبی ﷺ (پارٹ8) پڑھنے کے لیے یہ لنک وزٹ کریں

سیرت النبی ﷺ (پارٹ9) پڑھنے کے لیے یہ لنک وزٹ کریں

سیرت النبی ﷺ (پارٹ10) پڑھنے کے لیے یہ لنک وزٹ کریں

سیرت النبی ﷺ (پارٹ11) پڑھنے کے لیے یہ لنک وزٹ کریں

سیرت النبی ﷺ (پارٹ12) پڑھنے کے لیے یہ لنک وزٹ کریں

سیرت النبی ﷺ (پارٹ13) پڑھنے کے لیے یہ لنک وزٹ کریں


ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے