سیرت النبی ﷺ, ابتدائی دعوتِ اسلام, خفیہ تبلیغ, صحابہ کرام, مکہ کا دور, ایمان کی آزمائش
چالیس سال کی عمر میں جب رسول اللہ ﷺ پر وحی نازل ہوئی تو انسانیت کے لیے نجات کا دروازہ کھل گیا۔ لیکن یہ عظیم ذمہ داری بہت بھاری تھی۔ اب آپ ﷺ کو ایک ایسے معاشرے میں اللہ کا پیغام پہنچانا تھا جہاں شرک، ظلم اور جہالت عام تھی۔ نبوت کے ابتدائی پانچ سال صبر، قربانی، خفیہ محنت اور ایمان کے امتحان کا زمانہ تھے۔
وحی کے بعد کی کیفیت
پہلی وحی کے بعد کچھ دن تک وحی رک گئی (جسے فترۃ الوحی کہا جاتا ہے)۔ آپ ﷺ کو غارِ حرا میں وحی کے بعد کچھ گھبراہٹ محسوس ہوئی، مگر اللہ تعالیٰ نے جلد ہی آپ کو تسلی دی:
"یَا أَیُّهَا الْمُدَّثِّرُ، قُمْ فَأَنْذِرْ"
(اے کپڑا اوڑھنے والے! اٹھو اور خبردار کرو۔)
یہ آیات نبوت کے واضح آغاز کا اعلان تھیں۔
خفیہ دعوت کا آغاز
ابتدا میں رسول اللہ ﷺ نے کھلے عام تبلیغ نہیں کی بلکہ چند قریبی لوگوں کو چپکے سے اسلام کی دعوت دی۔ یہ زمانہ تقریباً تین سال تک جاری رہا۔
اسلام قبول کرنے والے پہلے افراد حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا — سب سے پہلی ایمان لانے والی خاتون۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ — سب سے پہلے ایمان لانے والے مرد۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ — سب سے پہلے ایمان لانے والے نوجوان۔ حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ — سب سے پہلے ایمان لانے والے غلام۔
ان چاروں ہستیوں نے اسلام کی بنیاد میں سب سے پہلے قدم رکھا۔
حضرت ابوبکرؓ کے ذریعے اسلام کی دعوت
حضرت ابوبکر صدیقؓ نہایت نرم دل اور بااعتماد شخصیت تھے۔ ان کی کوششوں سے کئی نامور شخصیات نے اسلام قبول کیا، جیسے:
حضرت عثمان بن عفانؓ حضرت زبیر بن عوامؓ حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ حضرت سعد بن ابی وقاصؓ حضرت طلحہ بن عبیداللہؓ
یوں اسلام آہستہ آہستہ مکہ میں پھیلنے لگا۔
دارِ ارقم – پہلا اسلامی مرکز
جب مسلمانوں کی تعداد کچھ بڑھ گئی تو رسول اللہ ﷺ نے دارِ ارقم بن ابی الارقم کو دعوتِ اسلام کا مرکز بنایا۔ یہ مکان صفا پہاڑی کے قریب تھا۔ یہاں مسلمان خفیہ طور پر جمع ہوتے، قرآن سنتے، نماز پڑھتے اور ایمان کی تعلیم حاصل کرتے۔
یہی گھر اسلام کی پہلی “مدرسہ” یا تربیت گاہ کہی جا سکتی ہے۔
کھلی دعوت کا آغاز
تقریباً تین سال بعد اللہ تعالیٰ نے حکم دیا:
"وَأَنْذِرْ عَشِيرَتَكَ الْأَقْرَبِينَ"
(اور اپنے قریبی رشتہ داروں کو ڈراؤ۔)
رسول اللہ ﷺ نے اپنے خاندان کے تمام افراد کو جمع کیا اور فرمایا:
"اے قریش کے لوگو! میں تمہارے لیے ایک بڑے عذاب سے خبردار کرنے والا ہوں۔"
لیکن اکثر نے انکار کیا۔ ابو لہب نے کہا:
"تَبًّا لَكَ أَلِهَذَا جَمَعْتَنَا؟"
(تباہی ہو تجھے! کیا اس لیے ہمیں جمع کیا؟)
اسی پر سورۃ اللَّهَب نازل ہوئی۔
مشرکین مکہ کی مخالفت
جب رسول اللہ ﷺ نے کھلے عام توحید کی دعوت دینا شروع کی تو مکہ کے سردار پریشان ہو گئے۔
انہوں نے مخالفت، مذاق اور ظلم شروع کر دیا۔
سب سے زیادہ دشمنی کرنے والے: ابو لہب ابو جہل (عمرو بن ہشام) عتبہ اور شیبہ ولید بن مغیرہ
یہ لوگ قریش کے بڑے سردار تھے۔ انہوں نے اسلام کو روکنے کے لیے ہر حربہ آزمایا۔
مسلمانوں پر ظلم و ستم
اسلام لانے والوں پر ظلم شروع ہوا۔ کمزور مسلمان مارے گئے، قید کیے گئے یا ان پر سختیاں کی گئیں۔
مثلاً:
حضرت بلال حبشیؓ کو گرم ریت پر لٹایا گیا۔ حضرت عمارؓ اور ان کے والدین یاسرؓ و سمیہؓ کو شہید کر دیا گیا۔ حضرت خبابؓ کو آگ پر لٹایا گیا۔
یہ سب ایمان کی راہ میں عظیم قربانیاں تھیں۔
اہلِ ایمان کا صبر
رسول اللہ ﷺ اپنے ساتھیوں کو صبر کی تلقین کرتے۔ آپ فرماتے:
"پہلے لوگوں کو لوہے کی کنگھیوں سے گوشت الگ کیا گیا، پھر بھی وہ ایمان سے نہ پھِرے۔ تم پر بھی آزمائش آئے گی، مگر انجام کامیابی کا ہے۔"
یہ الفاظ صحابہ کے دلوں کو مضبوط کرتے رہے۔
قریش کی سازشیں
قریش نے کئی بار سازش کی:
کبھی آپ ﷺ کو پاگل کہا۔ کبھی جادوگر یا شاعر کہا۔ کبھی آپ کے پیغام کو سننے سے روکا۔ کبھی آپ کو دنیاوی لالچ دی کہ آپ تبلیغ چھوڑ دیں۔
لیکن آپ ﷺ نے فرمایا:
"اگر وہ میرے دائیں ہاتھ پر سورج اور بائیں ہاتھ پر چاند رکھ دیں، تب بھی میں اس دعوت کو نہیں چھوڑوں گا۔"
حضرت حمزہؓ اور حضرت عمرؓ کا اسلام لانا
نبوت کے پانچویں سال دو عظیم شخصیتوں نے اسلام قبول کیا:
حضرت حمزہ بن عبدالمطلبؓ — آپ ﷺ کے چچا۔ حضرت عمر بن خطابؓ — قریش کے بہادر سردار۔
ان کے ایمان لانے سے مسلمانوں کے حوصلے بلند ہوئے اور اب وہ دارِ ارقم سے باہر بھی نماز پڑھنے لگے۔
ایمان کی آزمائش اور ابتدائی ہجرت
جب ظلم حد سے بڑھ گیا تو رسول اللہ ﷺ نے صحابہ کو حبشہ (ایریٹریا/ایتھوپیا) ہجرت کی اجازت دی۔
یہ اسلام کی پہلی ہجرت تھی۔
حبشہ کے بادشاہ نجاشی نے مسلمانوں کو پناہ دی اور ان کے ساتھ انصاف کیا۔
چالیس سے پینتالیس سال تک کی زندگی کا خلاصہ
یہ پانچ سال انتہائی صبر، آزمائش اور محنت کے سال تھے۔
خفیہ تبلیغ دارِ ارقم کا قیام اہلِ ایمان کی تربیت مشرکین کی مخالفت مسلمانوں پر ظلم حضرت حمزہؓ اور حضرت عمرؓ کا اسلام لانا پہلی ہجرت
ان سب واقعات نے اسلام کی بنیاد مضبوط کر دی۔
رسول اللہ ﷺ نے نبوت کے ابتدائی پانچ سالوں میں ثابت قدمی، حکمت، صبر اور یقین کے ساتھ دین کی بنیاد رکھی۔
یہی وہ دور تھا جس نے آگے چل کر اسلام کے پھیلاؤ کی بنیاد بنائی۔
یہ سیرت النبی ﷺ کی چھٹی قسط (پارٹ 6) ہے۔
اگلی پوسٹ (پارٹ 7) میں ہم اسلام کے پھیلاؤ، قریش کے بائیکاٹ، شعب ابی طالب کے حالات اور طائف کے سفر کے بارے میں تفصیل سے بات کریں گے۔

0 تبصرے