سیرت النبی ﷺ پارٹ 19 نبی کریم ﷺ کے آخری لمحات امت کے لیے درد بھرا پیغام اور رخصتی کے لمحے
مدینہ منورہ کا ماحول اس دن بہت بھاری تھا فضا میں ایک عجیب سی خاموشی تھی جیسے ہر چیز یہ بتا رہی ہو کہ کوئی بہت بڑا واقعہ ہونے والا ہے صحابہ کرام کے چہروں پر فکر تھی ازواج مطہرات کے دل پریشان تھے اور ہر گھر میں ایک ہی چرچا تھا کہ نبی کریم ﷺ کی طبیعت مسلسل بگڑ رہی ہے اور بیماری شدت اختیار کر رہی ہے
نبی کریم ﷺ کی پوری زندگی انسانیت کی رہنمائی خدمت محبت اور خیرخواہی سے بھری ہوئی تھی مگر آخری دنوں کا حال اس سے بھی زیادہ دلسوز تھا اس میں ہر طرف امت کے لیے فکر ہر لمحہ عبادت ہر سانس میں اللہ کی یاد اور ہر بات میں امت کی بھلائی شامل تھی
نبی کریم ﷺ کی بیماری کا آغاز
نبی کریم ﷺ پر بیماری ہلکے بخار سے شروع ہوئی ابتدا میں کسی نے اندازہ تک نہ کیا کہ یہ بیماری آخری ثابت ہوگی مگر چند ہی دنوں میں بخار شدید ہو گیا جسم مبارک ناتواں ہونے لگا چلنے میں دشواری ہونے لگی اور جب کبھی مسجد میں آتے تو دو صحابی آپ کو بازو سے سہارا دے کر لاتے
بخار اتنا شدت اختیار کر گیا کہ آپ کا چہرہ مبارک سرخ ہونے لگتا لیکن حیرت انگیز بات یہ تھی کہ اس ساری تکلیف کے باوجود آپ ﷺ امت کی رہنمائی کرتے رہے دین کی تعلیم دیتے نماز جماعت اور امت کی بھلائی کی وصیت کرتے رہے
صحابہ کرام اس وقت آپ کے اردگرد یوں جمع رہتے جیسے کوئی قیمتی چیز ہاتھ سے نہ چھوٹنے پائے ہر چہرے پر دکھ ہر دل پر بوجھ اور ہر آنکھ میں نمی تھی مگر اس کے باوجود کوئی شخص یہ سوچنے کو تیار نہ تھا کہ وہ لمحہ قریب آ گیا ہے جس سے ہر عاشق رسول کانپ اٹھتا ہے
حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی کیفیت
ایک دن نبی کریم ﷺ نے اپنے صحابہ کو جمع کیا اور فرمایا کہ اللہ نے مجھے دنیا اور اپنے پاس لوٹ جانے کا اختیار دیا اور میں نے اپنے رب کی طرف جانے کو پسند کیا ہے یہ جملہ سنتے ہی حضرت ابو بکر صدیق رونے لگے ان کی چیخ دب نہ سکی انہیں اندازہ ہو گیا کہ نبی ﷺ اس دنیا کو الوداع کہنے والے ہیں
نبی کریم ﷺ کی تکلیف کا عالم
ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بتاتی ہیں کہ نبی ﷺ کا بخار بہت شدید تھا آپ کا جسم مبارک جلتا ہوا محسوس ہوتا تھا آپ کبھی اٹھتے کبھی بیٹھتے کبھی پانی مانگتے اور کبھی آسمان کی طرف نظر اٹھا کر امت کے لیے دعا کرتے
آپ فرماتے اے عائشہ میری تکلیف اللہ کی نظر میں میرے درجات بڑھاتی ہے اور میری امت کے لیے رحمت ہے
آپ کبھی صحابہ سے نصیحت فرماتے اور کبھی امت کی فکرمندی میں آہیں بھرتے بعض اوقات آپ اتنی تکلیف میں ہوتے کہ سر مبارک کو پکڑ لیتے مگر زبان پر شکوہ نہ ہوتا بلکہ امت کے لیے دعا ہی ہوتی
نبی ﷺ کی خواہش تھی کہ کسی کا حق باقی نہ رہے
ایک دن آپ نے حکم دیا کہ سب مسلمانوں کو مسجد میں جمع کیا جائے جب سب آ گئے تو آپ نے فرمایا اگر کسی کا کوئی حق مجھ پر باقی ہے یا میں نے کسی کے ساتھ سختی کی ہے تو آج اپنا حق لے لے میں نہیں چاہتا کہ اللہ کے سامنے اس حال میں پیش ہوں کہ میرے ذمہ کسی کا حق ہو
یہ سن کر مسجد نبوی میں ایک عجیب سی کیفیت چھا گئی لوگ زار و قطار رونے لگے کوئی کچھ بول نہ پایا مگر ایک صحابی کھڑے ہوئے جن کا ذکر بعض روایات میں عکاشہ کے نام سے ملتا ہے انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ احد کے دن آپ کا کوڑا میری پیٹھ پر لگا تھا میں اس کا بدلہ چاہتا ہوں
یہ سن کر حضرت عمر رضی اللہ عنہ تڑپ اٹھے انہوں نے کہا کیا تم رسول اللہ سے بدلہ لوگے مگر نبی کریم ﷺ نے فرمایا اے عمر اسے بدلہ لینے دو اگر اس کا حق میرے ذمہ ہے تو میں اللہ کے حضور جوابدہ ہوں
پھر نبی کریم ﷺ نے اپنا کرتہ مبارک اوپر کیا اور فرمایا لو تم اپنا بدلہ لے لو عکاشہ آگے بڑھے مگر کوڑا مارنے کے بجائے آپ کی پشت مبارک سے لپٹ کر رونے لگے انہوں نے آپ ﷺ کی پشت مبارک کو چوما اور کہا یا رسول اللہ میری کیا مجال کہ میں آپ کو کوڑا ماروں میں تو صرف اس مہر نبوت کو بوسہ دینا چاہتا تھا تاکہ اللہ مجھے جنت دے دے
یہ سن کر نبی کریم ﷺ مسکرائے اور فرمایا تم نے جنت واجب کر لی
حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی آمد
جب نبی ﷺ کی حالت اور خراب ہوئی تو حضرت فاطمہ آئیں انہوں نے اپنے والد کو اس حال میں دیکھا تو کھڑے کھڑے رونے لگیں نبی ﷺ نے انہیں قریب بلایا ان سے سرگوشی کی ایک بات پر وہ رو پڑیں دوسری بات پر مسکرا دیں
پہلی بات یہ تھی کہ نبی ﷺ نے فرمایا کہ میرا وقت قریب ہے دوسری بات یہ تھی کہ آپ ﷺ نے فرمایا کہ تم اہل جنت کی سردار ہو گی
یہ سن کر حضرت فاطمہ مسکرا دیں مگر آنکھوں میں آنسو ابھی بھی موجود تھے
آخری نصیحتیں
آپ ﷺ بار بار ایک ہی بات فرماتے رہے
نماز نہ چھوڑنا
کمزوروں پر رحم کرنا
غریبوں کی مدد کرنا
آپس میں اتحاد رکھنا
میری قبر کو عبادت گاہ نہ بنانا
شرک سے بچنا
ایک وقت ایسا بھی آیا جب آپ نے فرمایا کہ میں نے تم تک اللہ کا پیغام پہنچا دیا ہے اب تم نے اس کی حفاظت کرنی ہے
آخری دن کی کیفیت
بخار کی شدت بڑھتی گئی سانس لینے میں دشواری ہونے لگی مگر زبان مبارک پر ایک ہی ذکر تھا اللہ میری امت اللہ میری امت
ایک وقت ایسا آیا کہ آپ نے فرمایا کہ ابو بکر نماز پڑھائیں یہ امت کے لیے بہت بڑی واضح ہدایت تھی کہ خلافت اور امامت کا اصل حق حضرت ابو بکر کو حاصل ہے
نبی کریم ﷺ کی پوری زندگی کا خلاصہ یہی تھا
نماز کو مضبوطی سے پکڑ لو
کمزوروں کا خیال کرو
عدل کرو
سچائی پر قائم رہو
اللہ سے تعلق مضبوط رکھو
اور ہمیشہ امت کی خیرخواہی کرتے رہو
یہ آخری لمحے امت کے لیے چراغ کی طرح ہیں ان میں رہنمائی بھی ہے محبت بھی درد بھی اور نصیحت بھی
یہ پارٹ 19 نبی کریم ﷺ کی سیرت کے سب سے دردناک اور سب سے روشن واقعات پر مشتمل ہے
پارٹ 20 اگلے حصے میں ہم رسول اللہ ﷺ کے وصال اور وصال کے بعد مدینہ کی کیفیت صحابہ کرام کی ذمہ داریاں اور امت کے نئے دور کا آغاز تفصیل سے بیان کریں گے
مزید معلومات کے لیے یہ لنک وزٹ کریں

0 تبصرے