جنگ یمامہ کے بعد اسلامی لشکر کیوں فارس کی طرف بڑھا پارٹ 8
جنگ یمامہ ختم ہو چکی تھی مسیلمہ کذاب مارا جا چکا تھا اور عرب کی سرزمین سے جھوٹی نبوت کا سب سے خطرناک فتن ہمیشہ کے لیے مٹ چکا تھا اس فتح کے بعد بظاہر یہ محسوس ہوتا تھا کہ اب اسلامی لشکر واپس مدینہ آئے گا اور مسلمان کچھ عرصہ سکون کا سانس لیں گے مگر حقیقت یہ تھی کہ یہ سکون عارضی تھا اور آنے والے دن مزید آزمائشوں سے بھرے ہوئے تھے
![]() |
| جنگ یمامہ کے بعد اسلامی لشکر کیوں فارس کی طرف بڑھا پارٹ8 |
حضرت ابو بکر صدیق نے جنگ کے بعد کے حالات پر گہری نظر رکھی ہوئی تھی وہ صرف موجودہ فتنوں کو نہیں دیکھ رہے تھے بلکہ ان طاقتوں کو بھی دیکھ رہے تھے جو عرب کے باہر بیٹھ کر اسلامی ریاست کو کمزور کرنا چاہتی تھیں انہیں بخوبی معلوم تھا کہ اگر عرب کے اندرونی فتنوں کے بعد بیرونی خطرات کو نظر انداز کیا گیا تو یہ خطرات دوبارہ عرب کے اندر فساد پھیلا سکتے ہیں
اسی لیے جنگ یمامہ کے فوراً بعد یہ سوال پیدا ہوا کہ اب اسلامی لشکر کا اگلا قدم کیا ہونا چاہیے کیا لشکر واپس مدینہ آ جائے یا دشمن کی جڑ تک پہنچ کر خطرے کو ہمیشہ کے لیے ختم کر دیا جائے حضرت ابو بکر صدیق نے صحابہ سے مشاورت کی اور حالات کا باریک بینی سے جائزہ لیا
اس وقت عرب کے شمال مشرق میں فارس کی عظیم سلطنت موجود تھی جسے پرشن ایمپائر کہا جاتا تھا یہ سلطنت نہایت طاقتور تھی اور عراق اس کی سرحدی ریاست تھی فارس کی پرانی پالیسی یہ تھی کہ عرب قبائل کو آپس میں لڑایا جائے اور انہیں کسی مضبوط نظام کے تحت جمع نہ ہونے دیا جائے یہی وجہ تھی کہ فارس پہلے بھی کئی قبائل کو مسلمانوں کے خلاف ابھارنے کی کوشش کر چکا تھا
حضرت ابو بکر جانتے تھے کہ اگر فارس کو کھلا چھوڑ دیا گیا تو وہ شکست خوردہ قبائل کو دوبارہ بھڑکا سکتا ہے اور ایک نیا فتنہ جنم لے سکتا ہے اسی لیے انہوں نے فیصلہ کیا کہ اسلامی ریاست کو اب صرف دفاع تک محدود نہیں رہنا چاہیے بلکہ دشمن کو اس کے دروازے پر جا کر روکنا چاہیے
یہاں یہ بات بھی واضح رہے کہ مسیلمہ کے قتل کے بعد اسلامی لشکر فوراً مدینہ واپس نہیں آیا خالد بن ولید نے پہلے یمامہ اور اس کے آس پاس کے علاقوں میں مکمل امن قائم کیا بھاگے ہوئے لوگوں کو قابو میں کیا اور اسلام کے نظم کو مضبوط کیا اس کے بعد حضرت ابو بکر کی طرف سے واضح حکم آیا کہ لشکر کو منظم کیا جائے اور عراق کی سرحد کی طرف پیش قدمی کی جائے
یہ ذمہ داری ایک بار پھر خالد بن ولید کو دی گئی کیونکہ جنگ یمامہ میں وہ اپنی قیادت اور حکمت عملی ثابت کر چکے تھے حضرت ابو بکر کو معلوم تھا کہ فارس جیسی منظم سلطنت کے مقابلے کے لیے ایسا سپہ سالار چاہیے جو نہ صرف میدان جنگ جانتا ہو بلکہ دشمن کی چالوں کو بھی سمجھتا ہو
اسی دور میں مدینہ کے اندر ایک اور عظیم کام بھی جاری تھا جنگ یمامہ میں قرآن کے بہت سے حافظ شہید ہو چکے تھے جس کے بعد قرآن کی حفاظت کا مسئلہ شدت سے سامنے آیا یہی وہ موقع تھا جب قرآن کو تحریری شکل میں جمع کرنے کا تاریخی فیصلہ کیا گیا جس کی تفصیل آپ یہاں پڑھ سکتے ہیں
https://www.infopak21.com/2025/12/--------5-----7.html
یہ اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ خلافت راشدہ ایک ہی وقت میں دین کی حفاظت بھی کر رہی تھی اور ریاست کی حفاظت بھی
فارس کی طرف پیش قدمی کوئی جذباتی فیصلہ نہیں تھا بلکہ یہ ایک مکمل حکمت عملی تھی مقصد یہ تھا کہ اسلامی ریاست کے گرد ایسے محفوظ دائرے قائم کیے جائیں کہ کوئی طاقت دوبارہ عرب کے اندر فتنہ نہ پھیلا سکے اسی حکمت عملی نے بعد میں مسلمانوں کو بڑی بڑی فتوحات تک پہنچایا
فارس جسے آج ہم ایران اور عراق کے بڑے حصوں کی صورت میں جانتے ہیں اس وقت دنیا کی سب سے بڑی سلطنتوں میں شمار ہوتا تھا اس کے مقابلے میں مسلمانوں کی تعداد کم تھی مگر ان کے دل ایمان سے بھرے ہوئے تھے اور قیادت مضبوط ہاتھوں میں تھی
جنگ یمامہ کے بعد یہ مرحلہ اسلامی تاریخ کا وہ موڑ تھا جہاں سے مسلمان صرف فتنوں سے نمٹنے والی قوم نہیں رہے بلکہ دنیا کی بڑی طاقتوں کے مقابل کھڑے ہونے والی امت بن گئے
اسی سلسلے کی مکمل تفصیل اور سیرت نبوی کے تمام حصے آپ یہاں دیکھ سکتے ہیں
یہی وہ پس منظر ہے جس کے بعد اسلامی لشکر عراق کی سرحد کی طرف بڑھا اور تاریخ نے ایک نیا رخ لیا
اگلے حصے میں ہم دیکھیں گے کہ
خالد بن ولید نے عراق کی سرزمین پر پہلا قدم کہاں رکھا
فارسی فوج نے مسلمانوں کو کس نظر سے دیکھا
اور وہ کون سی پہلی جنگ تھی جس نے فارس کی طاقت کو ہلا کر رکھ دیا
پارٹ 9 میں یہ سب تفصیل کے ساتھ بیان کیا جائے گا
یہ وہ دور ہے جہاں سے عظیم فتوحات کا آغاز ہوتا ہے
جاری ہے

تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں