جنگ یمامہ کے بعد قرآن جمع کرنے کا 5 عظیم فیصلہ جات پارٹ 7

اسلامی تاریخ میں کچھ فیصلے ایسے ہوتے ہیں جو صدیوں کی سمت متعین کرتے ہیں جنگ یمامہ کے بعد قرآن مجید کو ایک جگہ جمع کرنے کا فیصلہ انہی عظیم ترین فیصلوں میں سے ایک تھا۔ یہ وہ وقت تھا جب امت نازک مرحلے سے گزر رہی تھی اور ایک ایسا قدم اٹھانے کی ضرورت تھی جو اسلام کے بنیادی پیغام کو آنے والی نسلوں تک محفوظ رکھ سکے یہی فیصلہ آگے چل کر مسلمانوں کے لیے دین کی حفاظت یکجہتی اور علمی استحکام کی بنیاد بن گیا 

جنگ یمامہ کے بعد قرآن جمع کرنے کا 5 عظیم فیصلہ جات پارٹ 7
جنگ یمامہ کے بعد قرآن جمع کرنے کا 5 عظیم فیصلہ جات پارٹ 7

اس بلاگ میں ہم نہ صرف اس عظیم فیصلے کی تفصیل جانیں گے بلکہ خلافت راشدہ کے ان تاریخی اقدامات کو بھی کھول کر سمجھیں گے جنہوں نے امت کو مضبوط ستون فراہم کیے ساتھ ہی ہم ایک متعلقہ تفصیلی مضمون کا حوالہ بھی ذکر کریں گے جو اسی موضوع کو آگے بڑھاتا ہے جیسا کہ آپ انٹرنل لنک یہاں دیکھ سکتے ہیں
👉 https://www.infopak21.com/2025/12/6.html

اس کے علاوہ عمومی اسلامی موضوعات اور ریسرچ اپڈیٹس کے لیے یہ معتبر پلیٹ فارم بھی قیمتی ثابت ہوسکتا ہے
👉 https://worldupdates62.blogspot.com/

جنگ یمامہ کے بعد مسلمانوں کی حالت بہت بھاری تھی اس جنگ نے جہاں فتح دی وہیں اس نے امت کو اندر تک ہلا کر رکھ دیا تھا اس معرکے میں بے شمار بہادر مسلمان شہید ہوئے تھے اور ان میں وہ لوگ بھی شامل تھے جنہوں نے قرآن مجید کو دل میں محفوظ کیا تھا جب یہ خبر مدینہ پہنچی تو پورا شہر گہرے غم میں ڈوب گیا ہر طرف سوگ تھا ہر گھر میں خاموشی تھی اور ہر چہرے پر دکھ کی لکیریں تھیں لوگ راستوں میں کھڑے ایک دوسرے سے ملتے تو ان کی آنکھوں سے آنسو بہہ نکلتے انہیں اپنے پیاروں کا غم بھی تھا اور اس سے بڑھ کر یہ فکر بھی کہ قرآن کی حفاظت کس طرح ممکن ہو گی                                      
جنگ کے بعد مسلمان لشکر تھکا ہوا زخمیوں سے بھرا ہوا اور شہیدوں کے غم میں ڈوبا ہوا مدینہ کی طرف لوٹا یہ سفر بھی آسان نہیں تھا ہر قدم پر ان کے دل بوجھل ہو جاتے تھے ہر سپاہی کو وہ چہرہ یاد آتا تھا جو کل تک ان کے ساتھ کھڑا تھا مگر آج مٹی میں آسودہ تھا جیسے جیسے لشکر مدینہ کے قریب پہنچتا جاتا تھا ویسے ویسے ان کے دلوں کی دھڑکن بڑھتی جاتی تھی وہ جانتے تھے کہ یہ خبر اہل مدینہ کے لیے کتنی بھاری ہو گی اور جب لشکر شہر میں داخل ہوا تو واقعی پورے مدینہ میں     روہانسی کیفیت پیدا ہو گئی تھی                              
اس سانحے نے اہل ایمان کو ایک بہت بڑے مسئلے کی طرف متوجہ کیا کہ اگر حفاظ یوں ہی شہید ہوتے رہے تو آنے والی نسلوں تک قرآن مجید کس طرح اسی اصل حالت میں پہنچے گا قرآن اس وقت صحابہ کے سینوں میں محفوظ تھا مگر اتنی بڑی تعداد میں حفاظ کے بیک وقت شہید ہونے نے امت کو سوچ میں ڈال دیا تھا اسی پریشانی میں حضرت عمر نے اس مسئلے کو سب سے پہلے اٹھایا انہیں ڈر تھا کہ کہیں یہ کمی امت کے لیے آزمائش نہ بن جائے انہوں نے حضرت ابو بکر کے پاس جا کر کہا کہ قرآن کو ایک جگہ جمع کر دیا جائے تاکہ کبھی کوئی تبدیلی نہ ہو سکے ابتدا میں حضرت ابو بکر نے اس خیال کو بہت بھاری سمجھا وہ سوچتے تھے کہ جس کام کو رسول اللہ نے اپنی زندگی میں نہیں کیا وہ میں کیسے کروں مگر جب انہوں نے مسئلے کی اصل سنگینی کو سمجھا تو انہوں نے پوری ذمہ داری کے ساتھ یہ کام قبول کر لیا                                                                      
قرآن کو جمع کرنے کے لیے ایسے شخص کی ضرورت تھی جو علم میں مضبوط ہو جسے لکھنے پڑھنے کا تجربہ ہو اور جس نے وحی کے وقت خود رسول اللہ کی موجودگی میں آیات کو لکھا ہو اس کے لیے سب سے موزوں شخصیت حضرت زید بن ثابت تھے وہ جوان تھے ذہین تھے اور اللہ نے انہیں یادداشت کی غیر معمولی صلاحیت عطا کی تھی انہوں نے اس ذمے داری کو انتہائی احتیاط کے ساتھ سرانجام دینا شروع کیا انہوں نے ہر آیت صرف تب قبول کی جب دو قابل اعتبار گواہ اس بات کی تصدیق کرتے کہ یہ آیت رسول اللہ کے سامنے لکھی گئی تھی اس طرح قرآن کا ایک محفوظ نسخہ تیار ہوا جو آج بھی امت کے پاس امانت کی طرح موجود ہے                                                                
مگر یہ دور صرف قرآن کو جمع کرنے کا نہیں تھا بلکہ اس وقت اسلامی ریاست کو کئی اور بڑے چیلنجز کا بھی سامنا تھا جنگ یمامہ کے بعد کئی علاقوں میں فتنوں نے دوبارہ سر اٹھانے کی کوشش کی کچھ قبائل نے پھر سے نافرمانی کا ارادہ کیا اور کچھ علاقوں میں نئے دجال پیدا ہونے لگے جن کا مقصد امت کو کمزور کرنا تھا اس لیے مسلمانوں پر لازم تھا کہ وہ نہ صرف قرآن کی حفاظت کریں بلکہ ریاست کو بھی مضبوط بنائیں تاکہ کوئی دشمن فائدہ نہ اٹھا سکے                                                
لشکر نے جنگ کے بعد کچھ عرصہ یمامہ کے علاقوں میں رہ کر بقیہ دشمنوں کو منتشر کیا انہیں یہ حکم تھا کہ جب تک ریاست مکمل طور پر محفوظ نہ ہو کوئی فیصلہ جلدی نہ کیا جائے جب خطرات کم ہو گئے تو لشکر مدینہ کی طرف لوٹا اور تمام حالات خلیفہ وقت کے سامنے رکھے اس کے بعد مسلمانوں نے ایک نئے عزم کے ساتھ ریاست سازی کا سلسلہ شروع کیا                  
مدینہ میں رہتے ہوئے حضرت ابو بکر اور حضرت عمر نے ایسے فیصلے کیے جنہوں نے اسلامی حکومت کی بنیادوں کو مضبوط کیا عدل کے نظام کو بہتر بنایا بیت المال کو منظم کیا عوامی مسائل کے حل کے لیے نیا طریقہ وضع کیا یتیموں بیواؤں اور بے سہارا لوگوں کی مدد کے لیے باقاعدہ انتظامات کیے یہ وہ چیزیں تھیں جنہوں نے اسلامی ریاست کو باقی قوموں سے ممتاز کر دیا تھا                                                                                 
جنگ یمامہ کے بعد ایک اور اہم سوال بھی اٹھا کہ آیا لشکر سیدھا مدینہ آیا یا دشمن کے باقی گروہوں کی طرف بڑھا تاریخ کے مطابق لشکر پہلے میدان میں مکمل طور پر فتنہ ختم کر کے پھر مدینہ آیا تھا تاکہ کسی طرف سے دوبارہ خطرہ نہ ابھرے اسی حفاظت نے ریاست کو ایسی طاقت دی جس کے بعد مسلمانوں نے بڑے بڑے ملک فتح کیے                                                      

         پارٹ 8 میں یہ پوری تفصیل ہو گی کہ
جنگ یمامہ کے فوراً بعد حضرت
                    ابو بکر نے خالد بن ولید کو حکم دیا کہ              
وہ اپنے لشکر کو منظم کریں
اور فارس کی طاقت یعنی پرشن ایمپائر کے مقابلے کے لیے عراق کی سرحد کی طرف بڑھیں
یہ قدم کیوں ضروری تھا
کیونکہ فارس نے عرب قبائل کو پہلے بھی بغاوت پر اکسانے کی کوشش کی تھی                                                              
اور اب وہ اسلامی ریاست کے لیے بڑا خطرہ تھا




تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

2025 میں موبائل سے پیسے کمانے کے 5 بہترین طریقے – گھر بیٹھے آن لائن انکم کریں

ایزی پیسہ ڈیبٹ کارڈ کے فوائد،بنانے کا طریقہ استعمال اور اے ٹی ایم چارجز کی مکمل معلومات

"WhatsApp سے پیسے کیسے کمائیں؟ مکمل گائیڈ