جنگ یمامہ کے بعد عراق میں داخلہ اور فارس کی طاقت کا پہلا امتحان پارٹ 9
جنگ یمامہ کے بعد اسلامی تاریخ ایک نئے مرحلے میں داخل ہو چکی تھی مسیلمہ کذاب کا فتنہ ختم ہو چکا تھا اور عرب کے اندرونی خطرات بڑی حد تک کنٹرول میں آ گئے تھے مگر خلافت راشدہ کی قیادت جانتی تھی کہ اصل آزمائش اب شروع ہونے والی ہے کیونکہ عرب کے باہر بڑی طاقتیں اسلامی ریاست کو ابھرتا ہوا خطرہ سمجھ رہی تھیں انہی حالات میں اسلامی لشکر نے عراق کی سرحد کی طرف رخ کیا جو دراصل فارس کی طاقت کا پہلا عملی امتحان تھا
![]() |
| جنگ یمامہ کے بعد عراق میں داخلہ اور فارس کی طاقت کا پہلا امتحان پارٹ 9 |
حضرت ابو بکر صدیق نے یہ فیصلہ کسی جذباتی کیفیت میں نہیں کیا تھا بلکہ یہ ایک گہری سوچ اور مستقبل کی حکمت عملی کا نتیجہ تھا وہ جانتے تھے کہ اگر فارس جیسی سلطنت کو نظر انداز کیا گیا تو وہ عرب کے نو مسلم قبائل کو دوبارہ بغاوت پر اکسا سکتی ہے اسی لیے ضروری تھا کہ دشمن کو اس کے اپنے میدان میں جا کر روکا جائے
اسی پس منظر میں خالد بن ولید کو اسلامی لشکر کی قیادت سونپی گئی وہ یمامہ میں اپنی عسکری مہارت ثابت کر چکے تھے اور ان کی تیز رفتاری فیصلہ کن حملے اور حالات کو فوراً سمجھنے کی صلاحیت فارس جیسے منظم دشمن کے مقابلے کے لیے انتہائی موزوں تھی لشکر کو ہدایت دی گئی کہ وہ عراق کی سرحد میں داخل ہو کر وہاں موجود فارسی اثر کو کمزور کرے
عراق اس وقت فارس کی سرحدی ریاست تھی یہاں فارسی گورنر مقرر تھے اور مقامی آبادی پر سخت نظام نافذ تھا عرب قبائل جو اس علاقے میں آباد تھے وہ فارسی ظلم اور بھاری ٹیکسوں سے تنگ آ چکے تھے جب اسلامی لشکر اس علاقے میں داخل ہوا تو بہت سے لوگوں نے اسے نجات دہندہ کے طور پر دیکھا
یہاں پہنچ کر اسلامی لشکر نے سب سے پہلے نظم و ضبط کا مظاہرہ کیا کسی آبادی پر بلا وجہ حملہ نہیں کیا گیا نہ ہی کسی کے مال و جان کو نقصان پہنچایا گیا لوگوں کو اسلام کا پیغام دیا گیا اور یہ واضح کیا گیا کہ جنگ صرف ظالم نظام کے خلاف ہے عام لوگوں کے خلاف نہیں یہ طرز عمل اس دور میں بالکل نیا تھا
عراق میں داخلے کے فوراً بعد فارسی فوج نے مسلمانوں کو سنجیدگی سے نہیں لیا انہیں یہ گمان تھا کہ یہ عرب قبائل کی ایک اور عارضی یلغار ہے جو جلد ہی ختم ہو جائے گی مگر جلد ہی انہیں اندازہ ہو گیا کہ یہ لشکر کسی اور مقصد کے لیے آیا ہے اس کے پاس مضبوط قیادت واضح نظریہ اور غیر معمولی حوصلہ موجود ہے
یہی وہ مرحلہ تھا جہاں فارس کی طاقت کا پہلا امتحان شروع ہوا فارسی فوج تعداد میں زیادہ تھی اس کے پاس بھاری ہتھیار اور جنگی تجربہ تھا مگر اس کے مقابلے میں مسلمانوں کے پاس ایمان قیادت اور نظم و ضبط تھا یہی فرق آنے والی لڑائیوں میں فیصلہ کن ثابت ہوا
اس موقع پر یہاں ایک اہم حوالہ بھی قابل ذکر ہے جو پچھلے حصے سے جڑا ہوا ہے جہاں یہ وضاحت کی گئی تھی کہ جنگ یمامہ کے بعد اسلامی لشکر کیوں فارس کی طرف بڑھا اس پس منظر کو سمجھنے کے لیے آپ یہ مضمون بھی ملاحظہ کر سکتے ہیں
جنگ یمامہ کے بعد اسلامی لشکر کیوں فارس کی طرف بڑھا پارٹ 8
عراق کی سرزمین پر ابتدائی جھڑپوں نے یہ ثابت کر دیا کہ فارسی فوج اپنی اندرونی کمزوریوں کا شکار ہے ان کے سپاہی دل سے لڑنے کے بجائے زبردستی میدان میں لائے گئے تھے جبکہ مسلمان اپنے مقصد پر یقین رکھتے تھے یہی وجہ تھی کہ کم تعداد کے باوجود اسلامی لشکر نے کئی مقامات پر کامیابیاں حاصل کیں
اس دور میں کویت اپنے موجودہ نام سے نہیں جانی جاتی تھی ابتدائی اسلامی دور میں اس علاقےکو زیادہ تر کاظمہ یا کازمہ کے نام سے جانا جاتا تھا یہ نام قدیم عرب مصادر میں ملتا ہے کاظمہ دراصل ایک ساحلی علاقہ تھا جو عراق کے جنوب اور خلیج کے کنارے واقع تھا بعد کے ادوار میں اسی علاقے کو قرین کہا جانے لگا اور بہت صدیوں بعد جا کر یہ علاقہ کویت کے نام سے مشہور ہوا اس لیے خالد بن ولید کے دور میں کویت کا نام کاظمہ ہی رائج تھا یہاں سے آگے چل کر ایک اور اہم سوال جنم لیتا ہے کہ کویت کا علاقہ کیسے فتح ہوا
اس دور فارسی اثر وہاں بھی موجود تھا جب اسلامی لشکر نے عراق میں اپنی پوزیشن مضبوط کی تو اس کے بعد ساحلی علاقوں کی طرف پیش قدمی کی گئی تاکہ فارسی رسد اور بحری اثر کو ختم کیا جا سکے اس حکمت عملی کے تحت کویت کے علاقوں میں بھی اسلامی اثر قائم ہوا اور وہاں کے لوگوں نے اسلام کی حکومت کو قبول کیا اس وقت کویت کی فتح دراصل ایک بڑے منصوبے کا حصہ تھی مقصد یہ تھا کہ فارس کی معاشی اور فوجی طاقت کو ہر سمت سے محدود کر دیا جائے تاکہ وہ دوبارہ منظم نہ ہو سکے اس پیش قدمی نے فارس کو دفاعی پوزیشن پر لا کھڑا کیا اور ان کی خود اعتمادی کو شدید نقصان پہنچا
ان تمام واقعات کے دوران خلافت راشدہ نے یہ بھی ثابت کیا کہ جنگ کے ساتھ ساتھ عدل اور اخلاقیات کو کبھی نظر انداز نہیں کیا گیا مفتوح علاقوں میں لوگوں کے حقوق کا خیال رکھا گیا عبادت گاہوں کو تحفظ دیا گیا اور مقامی آبادی کو مکمل مذہبی آزادی دی گئی یہی وہ عوامل تھے جنہوں نے اسلام کو دلوں میں جگہ دی
اگر اس دور کی مجموعی صورتحال کو دیکھا جائے تو واضح ہوتا ہے کہ جنگ یمامہ کے بعد عراق میں داخلہ محض ایک عسکری کارروائی نہیں تھا بلکہ یہ ایک تہذیبی اور نظریاتی تبدیلی کا آغاز تھا یہاں سے اسلامی ریاست ایک علاقائی طاقت سے عالمی طاقت بننے کے سفر پر گامزن ہوئی
گر آپ فری لانسنگ کے بارے میں جاننا چاہتے ہیں اور لوکل ہوسٹ پر ورڈپریس استعمال کرنے کا طریقہ سیکھنا چاہتے ہیں تو آپ لوکل ہوسٹ پر WordPress wp-admin تک رسائی کی یہ مکمل گائیڈ چیک کر سکتے ہیں
آنے والے دنوں میں اسلامی لشکر کے سامنے مزید بڑے چیلنجز تھے فارس کی مرکزی فوج کی تیاری نئی جنگی حکمت عملی اور بڑے معرکے ابھی باقی تھے یہی وہ مرحلہ ہے جہاں اگلا مشن شروع ہوتا ہے
پارٹ 10 میں ہم تفصیل سے دیکھیں گے کہ عراق میں ابتدائی کامیابیوں کے بعد اسلامی لشکر نے اگلا ہدف کیا مقرر کیا فارس نے اپنی طاقت کو بچانے کے لیے کیا حکمت عملی اپنائی اور وہ کون سی بڑی جنگ تھی جس نے فارس کی بنیادیں ہلا دیں یہ سب اگلے حصے میں مکمل تفصیل کے ساتھ بیان کیا جائے گا
جاری ہے
Is article mein hum ne Battle of Yamama ke baad Iraq mein entry aur Persian Empire ke khilaf Muslim army ke mission ko asaan aur mukammal andaaz mein samjhaya hai

تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں