سیرت النبی حضرت محمد ﷺ – آٹھ سال سے پچیس سال تک کے حالات و واقعات (پارٹ 4)

 اسلامی تاریخ, نبی اکرم ﷺ کی زندگی, حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا, بچپن اور جوانی کے واقعات

رسول اکرم ﷺ کی زندگی کا ہر پہلو انسانیت کے لیے رہنمائی ہے۔ آپ کی بچپن کی یتیمی سے لے کر جوانی تک کی زندگی میں بے شمار اسباق پوشیدہ ہیں۔ پچھلے حصے (پارٹ 3) میں ہم نے چھ سال سے آٹھ سال کی عمر تک کے حالات پڑھے کہ کس طرح والدہ کی وفات کے بعد دادا عبدالمطلب نے کفالت کی، پھر ان کی وفات کے بعد ابو طالب نے سرپرستی سنبھالی۔ اب پارٹ 4 میں ہم آٹھ سال سے پچیس سال کی عمر تک کے اہم حالات بیان کریں گے۔

ابو طالب کی کفالت اور محبت 

دادا کی وصیت کے مطابق ابو طالب نے اپنے بھتیجے محمد ﷺ کو اپنی کفالت میں لیا۔ اگرچہ ابو طالب مالی طور پر بہت مالدار نہ تھے لیکن ان کے دل میں بھتیجے کے لیے بے پناہ محبت تھی۔ وہ ہر حال میں آپ ﷺ کو مقدم رکھتے۔ کھانے پینے میں، رہنے سہنے میں اور سفر میں آپ کو ہمیشہ اپنے قریب رکھتے۔

ابو طالب جانتے تھے کہ ان کے بھتیجے کی شان عام بچوں جیسی نہیں ہے۔ وہ اکثر کہا کرتے:

"میرا یہ بھتیجا ایک دن بڑی عظمت پائے گا۔"

کمسنی اور محنت کی زندگی 

رسول اللہ ﷺ نے بچپن اور لڑکپن ہی سے محنت کو اپنا شعار بنایا۔ آپ ﷺ نے بکریاں چرائیں۔ ایک روایت کے مطابق آپ ﷺ نے فرمایا:

"اللہ کے ہر نبی نے کبھی نہ کبھی بکریاں چرائی ہیں۔"

صحابہ نے پوچھا: یا رسول اللہ! آپ نے بھی؟

آپ ﷺ نے فرمایا: "ہاں، میں نے مکہ والوں کی بکریاں چند قیراط کے بدلے چرائیں۔"

یہ عمل صرف روزگار ہی نہیں تھا بلکہ تربیت بھی تھی۔ صحراؤں میں بکریاں چرانی آپ کو صبر، تنہائی میں غور و فکر، اور جانوروں کی دیکھ بھال جیسی عادات کا عادی بناتی رہی۔

تجارتی سفر اور امانت داری 

جوانی کی دہلیز پر قدم رکھتے ہی رسول اللہ ﷺ نے تجارت کا میدان اختیار کیا۔ آپ ﷺ امانت اور دیانت کے ساتھ کاروبار کرتے۔ مکہ کے لوگ آپ کی ایمانداری کے اتنے قائل ہو گئے کہ آپ کو "الصادق" (سچ بولنے والا) اور "الامین" (امانت دار) کہنے لگے۔

ایک موقع پر آپ نے قریش کے ایک قافلے کے ساتھ شام کا سفر کیا۔ اس سفر کے دوران آپ کی دیانت، نرمی اور عقل مندی سب پر ظاہر ہو گئی۔ راہب بحیرا کی ملاقات بھی اسی سفر میں مشہور ہے جس نے آپ ﷺ کی پیشانی پر نبوت کی علامت دیکھی۔

( پارٹ 1) سیرت النبی حضرت محمد ﷺ ولادتِ مبارکہ سے دو سال کی عمر تک کے واقعات جاننےکے لیے یہ لنک وزٹ کریں

شام کا سفر اور غیر معمولی واقعات 

شام کا سفر صرف تجارتی لحاظ سے اہم نہیں تھا بلکہ اس میں کئی نشانیاں بھی ظاہر ہوئیں۔ روایت ہے کہ جب قافلہ بصرہ کے قریب پہنچا تو ایک راہب (بحیرا) نے قافلے والوں کو کھانے پر بلایا۔ اس نے خاص طور پر محمد ﷺ پر نظر ڈالی اور کہا:

"یہ بچہ نبی آخرالزمان ہے۔ اس کی پیشانی پر وہی نشان ہے جس کا ذکر ہماری کتابوں میں ہے۔"

یہ سن کر ابو طالب اور قافلے کے لوگ حیران رہ گئے اور فوراً رسول اللہ ﷺ کو واپس مکہ لے آئے تاکہ دشمنوں کی نظر نہ لگے۔

حلف الفضول میں شمولیت 

جوانی کے زمانے میں مکہ میں ایک واقعہ پیش آیا کہ ایک شخص کا مال کسی بڑے سردار نے دبا لیا۔ رسول اللہ ﷺ نے قریش کے چند انصاف پسند افراد کے ساتھ مل کر "حلف الفضول" کے معاہدے میں حصہ لیا۔ اس معاہدے میں یہ طے ہوا کہ مکہ میں کسی پر ظلم ہو تو سب مل کر مظلوم کا حق دلوائیں گے۔

آپ ﷺ اس معاہدے کو بعد میں بھی یاد کرتے اور فرماتے:

"مجھے اس معاہدے میں شامل ہونے پر اتنی خوشی ہے کہ اگر آج اسلام میں بھی ایسا معاہدہ ہوتا تو میں ضرور شریک ہوتا۔"

(پارٹ 2) سیرت النبی حضرت محمد ﷺ دو سال سے چھ سال کی عمر تک کے واقعات جاننے کے لئے یہ لنک وزٹ کریں

الصادق، الامین کا لقب 

مکہ کے لوگ آپ ﷺ کی سچائی اور امانت داری کے اتنے گواہ بنے کہ ہر شخص آپ کو "الصادق، الامین" کہہ کر پکارتا۔ یہ لقب آپ کی سب سے بڑی پہچان بن گیا۔ اگر کوئی اپنا مال کسی کے پاس رکھنے میں ہچکچاتا تو آپ ﷺ کے پاس بلا خوف و خطر امانت رکھوا دیتا۔

یہی کردار آگے چل کر نبوت کی دعوت میں سب سے بڑی دلیل ثابت ہوا کیونکہ دشمن بھی آپ کو جھوٹا نہیں کہہ سکتے تھے۔

حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کا تجارتی قافلہ 

اس زمانے میں مکہ کی ایک معزز اور مالدار خاتون حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا تھیں۔ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کی سچائی اور ایمانداری کی شہرت سن کر آپ کو اپنے تجارتی قافلے کے ساتھ بھیجا۔ اس سفر میں بھی آپ ﷺ نے نہایت دیانت اور حکمت کے ساتھ تجارت کی۔

حضرت خدیجہؓ کے غلام میسرہ نے جب آپ کے اخلاق، دیانت، نرم مزاجی اور غیبی نشانیوں کے بارے میں بتایا تو حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کا دل مطمئن ہوا کہ یہ نوجوان عام نہیں ہے۔

حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا سے نکاح 

تجارت سے واپسی پر حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے آپ ﷺ کو شادی کا پیغام بھیجا۔ آپ ﷺ کی عمر اس وقت پچیس سال اور حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی عمر چالیس سال تھی۔ یہ نکاح آپ ﷺ کی زندگی کا نہایت مبارک اور عظیم واقعہ تھا۔

حضرت خدیجہؓ نے آپ کی زندگی کے کٹھن لمحات میں ہمیشہ ساتھ دیا۔ وہ آپ کی سب سے بڑی حامی اور مددگار بنیں۔ اسی لیے آپ ﷺ انہیں "خدیجہ الکبریٰ" کہا کرتے اور ہمیشہ ان کی قدر کرتے رہے۔

(پارٹ 3) سیرت النبی حضرت محمد ﷺ چھ سال سے آٹھ سال کی عمر تک کے واقعات جاننے کے لئے یہ لنک وزٹ کریں

پچیس سال تک کی شخصیت کا خلاصہ 

رسول اکرم ﷺ کی پچیس سال تک کی زندگی محنت، امانت، سچائی اور اعلیٰ اخلاق سے بھری ہوئی تھی۔

آپ نے یتیمی کا کرب جھیلا۔ محنت مزدوری کی۔ بکریاں چرائیں۔ تجارت کی۔ الصادق الامین کا لقب پایا۔ مظلوموں کی حمایت کے لیے حلف الفضول میں شامل ہوئے۔ اور آخرکار حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا جیسی عظیم بیوی آپ کے ساتھ شریکِ حیات بنیں۔ 

یہ تمام واقعات دراصل نبوت کی تیاری تھے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب ﷺ کو ہر آزمائش اور تجربے سے گزارا تاکہ آپ آنے والے وقت میں انسانیت کے رہبر اور معلم بن سکیں۔

آٹھ سال سے پچیس سال تک کا یہ دور رسول اکرم ﷺ کی شخصیت کی بنیاد ہے۔ یتیمی، محنت، سچائی، امانت اور نکاح جیسے مراحل نے آپ کی زندگی کو وہ عظمت عطا کی جس کی روشنی پوری دنیا میں پھیلنے والی تھی۔

      نوٹ:

یہ سیرت النبی ﷺ کی چوتھی قسط (پارٹ 4) ہے۔ اگلی پوسٹ (پارٹ 5) میں ہم رسول اللہ ﷺ کی نبوت سے قبل غارِ حرا کی عبادت اور پہلی وحی کے نزول تک کے حالات بیان کریں گے۔



ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے