سیرت النبی ﷺ (پارٹ 8) ہجرتِ مدینہ، مسجدِ نبوی ﷺ کی تعمیر، مؤاخاتِ مدینہ اور اسلامی ریاست کا قیام
ابتدائی پس منظر مکہ سے مدینہ تک کا سفر
جب مکہ مکرمہ میں اسلام دشمن قوتوں کا ظلم بڑھتا گیا اور اہلِ ایمان کے لیے زمین تنگ ہو گئی، تب اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب نبی حضرت محمد ﷺ کو ہجرت کا حکم دیا۔
یہ ہجرت صرف ایک شہر سے دوسرے شہر کا سفر نہیں تھا، بلکہ اسلامی تاریخ کا سب سے عظیم موڑ تھا جس نے ایک نئی امت اور ایک منظم ریاست کی بنیاد رکھی۔
ہجرت کی اجازت اور منصوبہ بندی
نبی کریم ﷺ کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہجرت کی اجازت ملنے سے پہلے مکہ میں کئی سال سختیاں برداشت کرنی پڑیں۔
جب اہلِ مدینہ (یثرب) کے چند لوگ اسلام قبول کر چکے تھے، تو انہوں نے آپ ﷺ کو دعوت دی کہ آپ وہاں تشریف لائیں تاکہ وہ آپ کی مدد اور حفاظت کر سکیں۔
بیعتِ عقبہ ثانیہ (نبوت کے 13ویں سال) میں 75 کے قریب مرد و عورتوں نے آپ ﷺ سے عہد کیا کہ وہ آپ کا ساتھ دیں گے جیسے اپنے اہل و عیال کا دیتے ہیں۔
یہ معاہدہ اسلامی ریاست کے قیام کا پہلا عملی قدم تھا۔
ہجرتِ مدینہ کا آغاز
جب کفارِ مکہ نے یہ محسوس کیا کہ نبی ﷺ مدینہ کی طرف روانہ ہونے والے ہیں، تو انہوں نے ایک خفیہ منصوبہ بنایا کہ سب قبیلے مل کر آپ ﷺ پر حملہ کریں تاکہ کوئی قبیلہ قصاص کا مطالبہ نہ کر سکے۔
لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی ﷺ کو پہلے ہی اطلاع دے دی۔
آپ ﷺ نے رات کو حضرت علیؓ کو اپنے بستر پر لٹا دیا تاکہ دشمنوں کو دھوکہ ہو۔
پھر حضرت ابوبکر صدیقؓ کے ہمراہ غارِ ثور کی طرف روانہ ہوئے
غارِ ثور کا واقعہ
تین دن تک آپ ﷺ اور حضرت ابوبکرؓ غارِ ثور میں چھپے رہے۔
کفار غار کے دہانے تک پہنچ گئے، مگر اللہ نے حفاظت فرمائی۔
قرآن میں ارشاد ہے:
"لَا تَحْزَنْ إِنَّ اللَّهَ مَعَنَا"
(غم نہ کر، بے شک اللہ ہمارے ساتھ ہے)
سورۃ التوبہ: 40
ایک مکڑی نے جالا بُنا اور کبوتری نے انڈے دے دیے، یوں دشمنوں کو گمان ہوا کہ کوئی اندر نہیں گیا۔
مدینہ کی طرف سفر
غار سے نکلنے کے بعد آپ ﷺ نے مدینہ کی جانب سفر کیا۔
راستے میں حضرت سراقہ بن مالک نے تعاقب کیا، مگر اللہ کی قدرت سے اس کا گھوڑا زمین میں دھنس گیا۔
وہ ایمان سے محروم رہا مگر بعد میں اسلام قبول کیا۔
جب نبی ﷺ مدینہ کے قریب پہنچے، تو لوگ روز انتظار کرتے کہ کب محبوب رسول ﷺ کی زیارت نصیب ہو۔
آخرکار قباء کے مقام پر پہنچے، جہاں سب سے پہلی مسجد (مسجدِ قباء) کی بنیاد رکھی گئی۔ مسجدِ قباء کی بنیاد
یہ وہ مقام ہے جسے قرآن نے "مسجدٌ أُسِّسَ عَلَى التَّقْوَىٰ" کہا —
یعنی "وہ مسجد جو تقویٰ کی بنیاد پر قائم کی گئی۔"
آپ ﷺ نے اپنے ہاتھ مبارک سے اینٹیں اٹھائیں، صحابہؓ نے بھی شرکت کی۔
یہ اسلام کی پہلی عبادت گاہ اور پہلی اجتماعی تنظیم تھی۔
مدینہ میں داخلہ استقبال
مدینہ کے لوگوں نے نبی ﷺ کا تاریخی استقبال کیا۔
بچے، عورتیں، بوڑھے سب نعرے لگا رہے تھے:
"طَلَعَ الْبَدْرُ عَلَيْنَا مِنْ ثَنِيَّاتِ الْوَدَاعِ..."
(ہم پر بدر کا چاند طلوع ہوا ہے، ثنیات الوداع کی جانب سے۔)
یہ دن اسلامی تاریخ کا نیا آغاز تھا۔
مسجدِ نبوی ﷺ کی تعمیر
مدینہ پہنچنے کے بعد آپ ﷺ نے مسجدِ نبوی کی جگہ منتخب فرمائی، جو دو یتیم بچوں کی زمین تھی۔
زمین خریدی گئی، اور تعمیر کا آغاز ہوا۔
آپ ﷺ خود مزدوروں کے ساتھ مٹی اٹھاتے، لبوں پر یہ شعر جاری تھا:
“اَللّٰهُمَّ لاَ عَيْشَ إِلاَّ عَيْشُ الْآخِرَةِ، فَاغْفِرْ لِلْأَنْصَارِ وَالْمُهَاجِرَةِ”
مسجد کی چھت کھجور کی شاخوں سے بنی، ستون درختوں کے تنے تھے، فرش مٹی کا۔
یہ سادگی ہی دراصل اسلام کی عظمت تھی۔
مؤاخاتِ مدینہ (بھائی چارہ)
مدینہ پہنچ کر سب سے پہلا انتظام مؤاخات کا کیا گیا —
یعنی مہاجرین اور انصار کے درمیان اسلامی بھائی چارے کا معاہدہ۔
ہر ایک انصاری کو ایک مہاجر کا بھائی بنایا گیا۔
انصار نے اپنے گھر، باغات، اور دولت سب کچھ مہاجرین کے ساتھ بانٹ دیا۔
حضرت سعد بن ربیعؓ نے حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ سے کہا:
“میں اپنا آدھا مال تمہیں دیتا ہوں، اور دو بیویوں میں سے ایک تمہاری مرضی سے طلاق دے کر تمہیں نکاح کے لیے پیش کرتا ہوں۔”
حضرت عبدالرحمنؓ نے فرمایا: “اللہ تمہیں برکت دے، مجھے بازار کا راستہ دکھا دو۔”
یہ تھی اسلامی اخوت کی سب سے خوبصورت مثال۔
میثاقِ مدینہ — اسلامی ریاست کا پہلا دستور
نبی ﷺ نے مدینہ میں پہنچ کر مختلف قبائل، مسلمانوں، یہودیوں اور غیرمسلموں کے درمیان ایک تحریری معاہدہ کیا، جو "میثاقِ مدینہ" کہلاتا ہے۔
یہ دنیا کا پہلا لکھا ہوا آئین تھا، جس میں درج تھا:
سب لوگ ایک امت ہیں۔ ہر فرد کو مذہبی آزادی حاصل ہے۔ ظلم کے خلاف سب مل کر دفاع کریں گے۔ فیصلے رسول اللہ ﷺ کی شریعت کے مطابق ہوں گے۔
یہ معاہدہ اسلام کی پہلی آئینی ریاست کی بنیاد بنا۔
اسلامی ریاست کے بنیادی اصول
نبی ﷺ نے مدینہ میں جو نظام قائم کیا، وہ تین بنیادوں پر کھڑا تھا:
ایمان اور عبادت – اللہ کی بندگی اور عدل۔ اخوت و مساوات – کسی عرب، عجم، کالا، گورا کی برتری نہیں۔ انصاف و مشاورت – ہر فیصلے میں عدل، شورٰی اور دیانت۔
یہی وہ اصول تھے جن پر بعد میں اسلامی سلطنت پھیلی۔
معاشی نظام کی بنیاد
مدینہ میں اقتصادی عدل کا نظام قائم کیا گیا:
زکوٰۃ اور صدقات کا منظم طریقہ۔ تجارت میں دیانت داری۔ سود کی ممانعت۔ کمزور طبقے کی مدد۔
اس سے ایک فلاحی اسلامی معاشرہ وجود میں آیا جہاں کسی کو بھوک سے مرنا نہیں پڑتا تھا۔
اسلام کے دفاعی اقدامات
مدینہ پہنچنے کے فوراً بعد مکہ والوں نے خطرہ محسوس کیا۔
اس لیے نبی ﷺ نے اسلامی ریاست کے تحفظ کے لیے منظم نظام قائم کیا —
سپاہیوں کی تربیت، نگرانی، اور سرحدوں پر انتظام۔
یہ سب دفاعی بنیادیں تھیں، نہ کہ جنگی۔
اسلام نے ہمیشہ امن کی دعوت دی۔
اذان اور نمازِ باجماعت کا آغاز
مدینہ میں اسلام کا سماجی نظام مکمل ہونے لگا۔
حضرت عبداللہ بن زیدؓ کو خواب میں اذان کے الفاظ سکھائے گئے، اور آپ ﷺ نے انہیں اپنایا۔
حضرت بلالؓ کو پہلا مؤذن مقرر کیا گیا۔
یہ وہ لمحہ تھا جب مدینہ کی فضا “اللہ اکبر” کی صدا سے گونج اٹھی۔
رحمت، عدل اور اتحاد کی فضا
نبی ﷺ نے ایک ایسا معاشرہ تشکیل دیا جہاں:
پڑوسیوں کے حقوق کا خیال رکھا جاتا۔ غریبوں کی مدد کی جاتی۔ غیر مسلموں کے ساتھ بھی انصاف کیا جاتا۔
یہی وہ رحمت للعالمین ﷺ کی عملی تصویر تھی۔ اور سبق
نبوت کے ابتدائی 13 سال مکہ میں ایمان، صبر اور قربانی کے تھے،
جبکہ مدینہ کے سال تعمیر، قیادت اور کامیابی کے تھے۔
ہجرتِ مدینہ نے ہمیں سکھایا کہ:
ایمان کے بعد عمل ضروری ہے۔ قربانی کے بعد کامیابی آتی ہے۔ اور اللہ پر توکل سب سے بڑی طاقت ہے۔
یہ وہ بنیاد تھی جس پر بعد میں اسلامی سلطنت قائم ہوئی،
جو عدل، علم اور امن کی علامت بنی۔
اگلی قسط (پارٹ 9) میں:
ہم بات کریں گے غزواتِ بدر، احد، خندق اور ابتدائی اسلامی فتوحات پر
کہ کس طرح کمزور مسلمانوں نے ایمان کی طاقت سے دنیا کو بدل دیا۔
سیرت النبی ﷺ (پارٹ1) پڑھنے کے لیے یہ لنک وزٹ کریں
سیرت النبی ﷺ (پارٹ2) پڑھنے کے لیے یہ لنک وزٹ کریں
سیرت النبی ﷺ (پارٹ3) پڑھنے کے لیے یہ لنک وزٹ کریں
سیرت النبی ﷺ (پارٹ4) پڑھنے کے لیے یہ لنک وزٹ کریں
سیرت النبی ﷺ (پارٹ5) پڑھنے کے لیے یہ لنک وزٹ کریں
سیرت النبی ﷺ (پارٹ6) پڑھنے کے لیے یہ لنک وزٹ کریں
سیرت النبی ﷺ (پارٹ7) پڑھنے کے لیے یہ لنک وزٹ کریں

0 تبصرے