سیرت النبی ﷺ, غزوہ احد, اسلامی تاریخ, ایمان اور قربانی
سیرت النبی ﷺ پارٹ 10 | غزوۂ اُحد کی مکمل تفصیل | ایمان، قربانی اور صبر کا عظیم امتحان ابتدائی پس منظر
غزوۂ بدر کی فتح کے بعد مکہ کے مشرکین کے غرور کو سخت دھچکا لگا۔
قریش کے بڑے سردار، جیسے ابوسفیان، ابوجہل کی موت اور اپنے قافلے کے نقصان کا بدلہ لینا چاہتے تھے۔
ان کا مقصد صرف مسلمانوں کو شکست دینا نہیں تھا، بلکہ مدینہ کی اسلامی ریاست کو مکمل طور پر ختم کرنا تھا۔
مکہ میں ایک سال تک تیاری جاری رہی۔
ہر قبیلے سے سپاہی، گھوڑے، اور ہتھیار جمع کیے گئے۔
خواتین بھی ان کے ساتھ چلنے پر تیار ہوئیں تاکہ سپاہیوں کے حوصلے بلند رہیں۔
دوسری طرف مدینہ میں نبی کریم ﷺ مسلمانوں کو ایمان، صبر اور اتحاد کی تلقین فرما رہے تھے۔
جنگ سے پہلے کا منظر
رمضان 3 ہجری کے بعد، شوال کے مہینے میں قریش کا 3000 کا لشکر مکہ سے روانہ ہوا۔
ان کے ساتھ 700 زرہ پوش سپاہی، 200 گھوڑے اور 15 عورتیں بھی تھیں جو طبل و دف کے ذریعے جنگی جوش پیدا کرتی تھیں۔
نبی ﷺ کو یہ خبر ملی تو آپ نے صحابہ کرامؓ کو مشورے کے لیے بلایا۔
کچھ صحابہ نے فرمایا کہ مدینہ کے اندر رہ کر دفاع کریں،
جبکہ نوجوانوں کا مشورہ تھا کہ میدان میں جا کر مقابلہ کیا جائے۔
نبی ﷺ نے مشورہ اکثریت کے مطابق قبول کیا اور فرمایا:
“جب کوئی نبی جنگ کے لباس میں آتا ہے تو پھر واپس نہیں لوٹتا، جب تک اللہ فیصلہ نہ فرما دے۔”
لشکر کی ترتیب اور صف بندی
نبی ﷺ نے 1000 مجاہدین پر مشتمل لشکر تیار کیا۔
راستے میں عبداللہ بن اُبی (منافقین کا سردار) 300 آدمیوں کو لے کر واپس چلا گیا،
جس سے مسلمانوں کی تعداد صرف 700 رہ گئی۔
میدانِ اُحد مدینہ سے تقریباً تین میل کے فاصلے پر تھا۔
پہاڑ کی پشت پر مسلمانوں نے صف بندی کی تاکہ دشمن گھیر نہ سکے۔
نبی ﷺ نے 50 تیر اندازوں کو ایک پہاڑی پر مقرر کیا (جسے "جبل الرماة" کہا جاتا ہے)
اور ان کے سردار حضرت عبداللہ بن جبیرؓ تھے۔
آپ ﷺ نے انہیں سختی سے حکم دیا:
“اگر تم دیکھو کہ ہم جیت گئے یا ہار گئے، اپنی جگہ نہ چھوڑنا، جب تک میں حکم نہ دوں۔”
جنگ کا آغاز
جنگ کا آغاز مشرکین کے مبارزہ سے ہوا۔
قریش کی طرف سے طلحہ بن ابی طلحہ آگے آیا،
اور مسلمانوں کی طرف سے حضرت علیؓ، حضرت حمزہؓ، اور حضرت زبیرؓ آگے بڑھے۔
کچھ ہی دیر میں قریش کے کئی بہادر قتل ہو گئے۔
پھر نبی ﷺ نے علم حضرت مصعب بن عمیرؓ کو دیا —
وہ نوجوان جنہوں نے مکہ کی عیش و عشرت چھوڑ کر اسلام کے لیے سب کچھ قربان کیا۔
ابتدائی مرحلے میں مسلمانوں نے زبردست بہادری دکھائی۔
قریش کا لشکر پسپا ہونے لگا اور میدان میں ان کی عورتیں بھاگنے لگیں۔
یہ لمحہ مسلمانوں کے لیے کامیابی کا اعلان معلوم ہوتا تھا۔
تیر اندازوں کی غلطی
جب تیر اندازوں نے دیکھا کہ قریش کے لوگ بھاگ رہے ہیں اور مالِ غنیمت میدان میں بکھرا ہے،
تو ان میں سے اکثر نیچے اتر آئے۔
انہوں نے سمجھا کہ جنگ ختم ہو گئی۔
حضرت عبداللہ بن جبیرؓ نے بار بار کہا:
“رسول اللہ ﷺ نے منع فرمایا ہے، اپنی جگہ مت چھوڑو!”
مگر اکثر لوگوں نے حکم نظر انداز کر دیا۔
اسی موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے قریش کا سوار دست جس کی قیادت خالد بن ولید کر رہے تھے (اس وقت تک مسلمان نہیں ہوئے تھے
پہاڑ کے پیچھے سے چکر لگا کر مسلمانوں پر حملہ آور ہوا۔
مسلمان حیران رہ گئے۔
جنگ کا پانسہ پلٹ گیا۔
پہلے جو جیت لگ رہی تھی، اب آزمائش بن گئی۔
نبی ﷺ پر حملہ
جنگ کے شور و غل میں نبی کریم ﷺ کے گرد صرف چند صحابہ باقی رہ گئے۔
آپ ﷺ زخمی ہو گئے۔
دانت مبارک شہید ہوئے، پیشانی پر زخم آیا، خود کی دو کڑیاں رخسار میں دھنس گئیں۔
حضرت طلحہؓ، حضرت سعدؓ، حضرت علیؓ، اور حضرت ابو دجانہؓ نے آپ ﷺ کے گرد دیوار بنا لی۔
حضرت نسیبہ بنت کعبؓ (ام عمارہ) بھی تلوار سنبھالے دشمنوں کا مقابلہ کر رہی تھیں۔
کسی نے پکارا: “محمد ﷺ قتل ہو گئے!”
یہ آواز سنتے ہی مسلمانوں میں اضطراب پھیل گیا۔
کچھ بھاگنے لگے، کچھ پہاڑوں پر چڑھ گئے۔
لیکن نبی ﷺ ابھی زندہ تھے۔
آپ ﷺ نے پکارا:
“اَنا نَبِیُّ اللّٰہِ لَا کَذِبَ، اَنا ابْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبْ”
(میں اللہ کا نبی ہوں، یہ کوئی جھوٹ نہیں، میں عبدالمطلب کا پوتا ہوں۔)
یہ اعلان سنتے ہی مخلص صحابہ واپس لوٹ آئے اور آپ ﷺ کے گرد جمع ہو گئے۔
حضرت مصعب بن عمیرؓ کی شہادت
حضرت مصعبؓ علمِ اسلام اٹھائے دشمنوں کے مقابل جمے رہے۔
جب دشمنوں نے آپ ﷺ کی طرف بڑھنے کی کوشش کی، تو انہوں نے نبی ﷺ کا دفاع کرتے ہوئے جامِ شہادت نوش کیا۔
انہیں دشمنوں نے نبی ﷺ سمجھ کر مار دیا تھا کیونکہ ان کا لباس اور قد آپ ﷺ سے مشابہ تھا۔
ان کی شہادت پر نبی ﷺ نے فرمایا:
“مصعبؓ نے اپنی جان دے دی، مگر ایمان کی لاج رکھی۔”
حضرت حمزہؓ کی شہادت
حضرت حمزہؓ، جو اسلام کے شیر کہلاتے تھے،
وحشی بن حرب کے نیزے سے شہید ہو گئے۔
ہندہ (ابوسفیان کی بیوی) نے ان کے جسم کی بے حرمتی کی۔
نبی ﷺ نے جب ان کا جسدِ مبارک دیکھا، تو آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔
آپ ﷺ نے فرمایا:
“اے چچا! اللہ کی راہ میں آپ نے جو قربانی دی، وہ رہتی دنیا تک مثال رہے گی۔”
جنگ کے بعد مسلمان پہاڑ اُحد کی طرف چلے گئے۔
قریش نے کچھ دیر کے بعد واپس جانے کا فیصلہ کیا۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
“وَلَقَدْ صَدَقَكُمُ اللّٰهُ وَعْدَهُ إِذْ تَحُسُّونَهُم بِإِذْنِهِ حَتَّىٰ إِذَا فَشِلْتُمْ وَتَنَازَعْتُمْ فِي الْأَمْرِ...”
(آل عمران: 152)
“اللہ نے اپنا وعدہ پورا کیا جب تم ان کے مقابلے میں کامیاب ہو رہے تھے،
مگر جب تم نے کمزوری دکھائی اور آپس میں اختلاف کیا، تو آزمائش آ گئی۔”
یہ واقعہ ایمان والوں کے لیے ایک سبق بن گیا۔
جنگ کے نتائج 70 مسلمان شہید ہوئے۔ مشرکین کو وقتی فتح ملی مگر روحانی شکست ان ہی کی تھی۔ مسلمانوں نے صبر، استقامت اور نظم کی اہمیت کو سمجھا۔ منافقین کا چہرہ ایک بار پھر واضح ہو گیا۔ ایمان والوں کے دل میں یقین مزید مضبوط ہو گیا کہ آزمائش ایمان کا حصہ ہے۔ نبی ﷺ کی ہمت اور رہنمائی
جنگ کے بعد نبی ﷺ زخمی حالت میں بھی مسجد نبوی میں تشریف لائے۔
آپ ﷺ نے فرمایا:
“یہ دن مومنوں کے لیے آزمائش کا دن تھا، مگر یاد رکھو —
اللہ تعالیٰ ہمیں کبھی ضائع نہیں کرے گا جب تک ہم اپنے وعدے پر قائم ہیں۔”
اگلے دن نبی ﷺ نے صحابہ کو دوبارہ بلایا اور فرمایا:
“کل کے زخموں کے باوجود جو دشمن کا پیچھا کرے، وہ اللہ کا محبوب ہے۔”
ستر سے زائد زخمی صحابہ نے بھی شرکت کی —
یہ ایمان کی سچی تصویر تھی۔
شہداء اُحد کی تکریم
نبی ﷺ ہر سال غزوہ اُحد کے شہداء کی قبور پر تشریف لے جاتے،
سلام کرتے اور دعا فرماتے:
“السَّلامُ عَلَيْكُمْ يَا شُهَدَاءَ أُحُدٍ، أَنْتُمْ السَّابِقُونَ وَنَحْنُ بِكُمْ لاَحِقُونَ”
(سلام ہو اے اُحد کے شہیدو، تم ہم سے پہلے گئے، ہم تمہارے پیچھے آنے والے ہیں۔)
سبق اور پیغام
غزوۂ اُحد ہمیں یہ سکھاتا ہے کہ:
اللہ کی مدد صرف نظم، صبر، اور اطاعت کے ساتھ ملتی ہے۔ جذباتی فیصلے ایمان کو کمزور کر سکتے ہیں۔ نبی ﷺ کی اطاعت ہی اصل ایمان ہے۔ مشکلات میں ثابت قدمی ہی کامیابی کا زینہ ہے۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
“وَلَا تَهِنُوا وَلَا تَحْزَنُوا وَأَنتُمُ الْأَعْلَوْنَ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ”
(آل عمران: 139)
“غم نہ کرو، نہ کمزوری دکھاؤ، اگر تم ایمان والے ہو تو تم ہی غالب ہو۔”
غزوۂ اُحد ظاہری طور پر شکست کا منظر پیش کرتا تھا،
مگر حقیقت میں یہ ایمان کی تربیت کا عظیم موقع تھا۔
یہ جنگ مسلمانوں کو سمجھاتی ہے کہ اللہ اپنے بندوں کو کبھی تنہا نہیں چھوڑتا
بس شرط یہ ہے کہ ہم اطاعت، صبر، اور توکل کا دامن نہ چھوڑیں۔
اگلا حصہ (پارٹ 11)
اگلی قسط میں ان شاء اللہ ہم بات کریں گے:
غزوۂ خندق (احزاب) — جب پورا عرب اسلام کے خلاف متحد ہو گیا،
مگر ایمان، تدبیر، اور دعا کی طاقت نے دشمنوں کے منصوبے ناکام بنا دیے۔
سیرت النبی ﷺ (پارٹ1) پڑھنے کے لیے یہ لنک وزٹ کریں
سیرت النبی ﷺ (پارٹ2) پڑھنے کے لیے یہ لنک وزٹ کریں
سیرت النبی ﷺ (پارٹ3) پڑھنے کے لیے یہ لنک وزٹ کریں
سیرت النبی ﷺ (پارٹ4) پڑھنے کے لیے یہ لنک وزٹ کریں
سیرت النبی ﷺ (پارٹ5) پڑھنے کے لیے یہ لنک وزٹ کریں
سیرت النبی ﷺ (پارٹ6) پڑھنے کے لیے یہ لنک وزٹ کریں
سیرت النبی ﷺ (پارٹ7) پڑھنے کے لیے یہ لنک وزٹ کریں
سیرت النبی ﷺ (پارٹ8) پڑھنے کے لیے یہ لنک وزٹ کریں
سیرت النبی ﷺ (پارٹ9) پڑھنے کے لیے یہ لنک وزٹ کریں

0 تبصرے