سیرت النبی ﷺ، غزوہ خندق، غزوہ احزاب، اسلامی تاریخ، ایمان اور تدبیر
ابتدائی پس منظر
غزوۂ اُحد کے بعد اگرچہ مسلمانوں کو وقتی نقصان اٹھانا پڑا، مگر مدینہ کی ریاست مزید مضبوط ہو گئی۔
قریش اور ان کے اتحادی قبائل نے فیصلہ کیا کہ اب آخری اور فیصلہ کن حملہ کیا جائے تاکہ اسلام کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا جائے۔
یہ سن 5 ہجری کا زمانہ تھا۔ قریش کے ساتھ یہودی قبائل، بنو نضیر، غطفان، بنو قریظہ اور دیگر عرب قبیلے شامل ہو گئے۔
ان سب نے مل کر مدینہ پر حملے کی سازش تیار کی۔
اس اتحاد میں تقریباً 10 ہزار کا لشکر جمع ہوا — تاریخِ عرب میں پہلی بار اتنا بڑا لشکر ایک چھوٹی ریاست کے خلاف نکلا۔
اسی لیے اس جنگ کو “غزوۂ احزاب” (یعنی قبائل کی جنگ) بھی کہا جاتا ہے۔
مدینہ کا دفاع اور خندق کا منصوبہ
جب نبی کریم ﷺ کو یہ اطلاع ملی کہ دشمن متحد ہو کر مدینہ کی طرف بڑھ رہا ہے،
تو آپ ﷺ نے صحابہ کرامؓ کو مشورے کے لیے جمع فرمایا۔
مدینہ کے اردگرد پہاڑ اور کھجوروں کے باغات تھے، مگر ایک سمت کھلی تھی جہاں سے دشمن داخل ہو سکتا تھا۔
اسی وقت حضرت سلمان فارسیؓ نے عرض کیا:
“یا رسول اللہ ﷺ! ہم فارس (ایران) میں دشمن سے بچنے کے لیے زمین میں خندق کھودتے تھے۔ اگر آپ اجازت دیں تو یہاں بھی ویسا ہی کریں۔”
نبی ﷺ نے فوراً مشورہ قبول فرمایا۔
یوں اسلامی دنیا کی تاریخ میں پہلی بار خندق کا دفاعی منصوبہ تیار ہوا۔
خندق کی کھدائی
خندق تقریباً 5 کلومیٹر لمبی، 15 فٹ چوڑی اور 15 فٹ گہری تھی۔
نبی کریم ﷺ خود بھی مزدوروں کے ساتھ خندق کھودتے تھے۔
آپ ﷺ کے جسم مبارک پر مٹی لگی ہوتی، پیٹ پر پتھر بندھا ہوتا، مگر چہرے پر ایمان کی روشنی تھی۔
صحابہؓ کے ہونٹوں پر یہ نعرہ تھا:
“نَحنُ الَّذینَ بایَعوا مُحمَّدًا عَلَى الجِهادِ ما بَقینا أبدًا”
(ہم وہ ہیں جنہوں نے محمد ﷺ سے جہاد پر بیعت کی، جب تک زندہ رہیں گے۔)
پتھر کا واقعہ — معجزہ
خندق کھودتے وقت ایک بہت سخت پتھر آیا، جو کسی کے زور سے نہیں ٹوٹتا تھا۔
صحابہؓ نے نبی ﷺ کو اطلاع دی۔
آپ ﷺ خندق میں تشریف لائے،
آپ ﷺ نے فرمایا: “بِسمِ اللہ”
اور پھر کلہاڑا مارا — پتھر سے چنگاری نکلی۔
آپ ﷺ نے فرمایا:
“اللہ اکبر! مجھے یمن کی کنجیاں دکھائی گئی ہیں۔”
پھر دوسرا وار کیا،
“اللہ اکبر! مجھے شام کی کنجیاں عطا کی گئیں۔”
تیسرا وار فرمایا:
“اللہ اکبر! مجھے فارس (ایران) کے محلات نظر آ رہے ہیں۔”
اور پتھر ریزہ ریزہ ہو گیا۔
یہ دراصل اسلام کے مستقبل کی فتوحات کی بشارت تھی — جو بعد میں پوری ہوئیں۔
احزاب کا لشکر مدینہ پہنچا
دس ہزار کفار کا لشکر جب مدینہ کے قریب پہنچا تو حیران رہ گیا —
سامنے ایک وسیع خندق تھی، جسے وہ عبور نہیں کر سکتے تھے۔
اب انہوں نے محاصرہ کر لیا، اور مدینہ کو چاروں طرف سے گھیر لیا۔
ہوا تیز چلنے لگی، سردی بڑھ گئی، مگر مسلمانوں نے صبر اور استقامت کا مظاہرہ کیا۔
نبی ﷺ نے اپنے خیمے کے قریب خندق میں پہرہ دیا۔
دن رات پہاڑوں پر نگرانی ہوتی۔
بھوک اتنی تھی کہ صحابہ پیٹ پر دو دو پتھر باندھتے تھے۔
حضرت جابرؓ کے گھر میں جب ایک بکری ذبح کی گئی تو انہوں نے چپکے سے نبی ﷺ کو بلایا،
مگر آپ ﷺ تمام خندق کھودنے والوں کے ساتھ وہاں پہنچ گئے۔
اللہ نے برکت دی — دو درجن آدمیوں کے کھانے سے پورا لشکر سیر ہوا۔
یہودی قبیلہ بنو قریظہ کی غداری
مدینہ کے اندرونی حصے میں ایک یہودی قبیلہ بنو قریظہ آباد تھا۔
ان کا مسلمانوں سے میثاقِ مدینہ کے تحت امن معاہدہ تھا۔
لیکن دشمن کے دباؤ اور ابوسفیان کے نمائندے حیی بن اخطب کی چالوں میں آ کر
انہوں نے مسلمانوں سے غداری کر دی۔
انہوں نے دشمنوں سے کہا:
“ہم تمہارے ساتھ ہیں، تم باہر سے حملہ کرو، ہم اندر سے وار کریں گے۔”
یہ سب سے خطرناک صورتحال تھی —
اب دشمن باہر بھی تھا اور اندر بھی۔
مدینہ کا خوفناک محاصرہ
کفار نے خندق کے کنارے سے تیر برسانا شروع کیے۔
حضرت سعد بن معاذؓ زخمی ہو گئے۔
راتوں کو سردی اور خوف چھایا رہتا، مگر ایمان نے قدم جمائے رکھا۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن میں فرمایا:
“إِذْ جَاؤُوكُم مِّن فَوْقِكُمْ وَمِنْ أَسْفَلَ مِنكُمْ وَإِذْ زَاغَتِ الْأَبْصَارُ وَبَلَغَتِ الْقُلُوبُ الْحَنَاجِرَ...”
(الاحزاب: 10)
“جب وہ تم پر اوپر سے اور نیچے سے چڑھ آئے، اور آنکھیں پتھرا گئیں، دل حلق تک آ گئے، اور تم اللہ پر گمان کرنے لگے۔”
یہ وہ لمحہ تھا جب منافقین نے کہا:
“اللہ اور اس کے رسول نے ہمیں دھوکہ دیا ہے۔”
لیکن ایمان والوں نے کہا:
“یہی تو وہ وعدہ ہے جو اللہ اور اس کے رسول نے کیا تھا — اور اللہ نے سچ فرمایا!”
نعیم بن مسعودؓ کی حکمت
اللہ تعالیٰ نے ایک مخلص شخص نعیم بن مسعودؓ کو اسلام کی توفیق دی۔
وہ پہلے دشمن کے کیمپ میں تھے، مگر خفیہ طور پر ایمان لے آئے۔
نبی ﷺ نے ان سے فرمایا:
“تم ایک ہی آدمی ہو، مگر اگر ہو سکے تو دشمنوں میں پھوٹ ڈالو۔”
انہوں نے نہایت حکمت سے قریش، غطفان اور بنو قریظہ کے درمیان بداعتمادی پیدا کر دی۔
انہوں نے یہودیوں سے کہا: “قریش تمہیں چھوڑ جائیں گے۔”
اور قریش سے کہا: “یہودی تمہیں پکڑا دیں گے۔”
یوں اللہ کی مدد سے دشمنوں کا اتحاد ٹوٹ گیا۔
اللہ کی نصرت — تیز آندھی اور خوف
چالیس دن کے محاصرے کے بعد اللہ تعالیٰ نے اپنی نصرت نازل فرمائی۔
رات کو شدید آندھی، سرد طوفان، اور گرد و غبار نے پورے کفار کے لشکر کو ہلا کر رکھ دیا۔
قرآن میں فرمایا گیا:
“فَأَرْسَلْنَا عَلَيْهِمْ رِيحًا وَجُنُودًا لَّمْ تَرَوْهَا”
(الاحزاب: 9)
“ہم نے ان پر تیز ہوا اور ایسی فوجیں بھیجیں جنہیں تم نے نہیں دیکھا۔”
خیمے اڑ گئے، آگ بجھ گئی، برتن الٹ گئے، اور دشمن خوفزدہ ہو کر راتوں رات بھاگ گیا۔
بنو قریظہ کا انجام
جب کفار بھاگ گئے، تو نبی ﷺ نے فوراً فرمایا:
“اب نمازِ عصر تم بنو قریظہ کے علاقے میں پڑھو!”
مسلمان فوراً روانہ ہوئے۔
یہودیوں نے قلعہ بند ہو کر پناہ لی۔
چند دن کے محاصرے کے بعد انہوں نے ہتھیار ڈال دیے۔
ان کے فیصلے کے لیے حضرت سعد بن معاذؓ کو مقرر کیا گیا —
جو پہلے ان کے حلیف رہ چکے تھے۔
انہوں نے تورات کے قانون کے مطابق فیصلہ دیا:
“جنگی مرد قتل کیے جائیں، عورتیں اور بچے قیدی بنیں، اور مال تقسیم کیا جائے۔”
نبی ﷺ نے فرمایا:
“تم نے اللہ کے حکم کے مطابق فیصلہ کیا ہے۔”
فتح اور سکون کا پیغام
اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
“وَرَدَّ اللّٰهُ الَّذِينَ كَفَرُوا بِغَيْظِهِمْ لَمْ يَنَالُوا خَيْرًا”
(الاحزاب: 25)
“اللہ نے کافروں کو ان کے غصے سمیت واپس لوٹا دیا، وہ کوئی بھلائی حاصل نہ کر سکے۔”
مدینہ میں امن قائم ہوا،
اسلامی ریاست مزید مضبوط ہو گئی۔
یہ وہ موقع تھا جب نبی ﷺ نے فرمایا:
“اب سے قریش ہم پر حملہ نہیں کریں گے، ہم ان پر جائیں گے۔”
سبق اور پیغام
غزوۂ خندق ہمیں یہ سبق دیتا ہے کہ:
ایمان کے ساتھ تدبیر بھی ضروری ہے۔ صبر، اتحاد، اور قیادت پر اعتماد ایمان کی بنیاد ہے۔ مشکل وقت میں اللہ کی مدد یقینی ہے۔ اندرونی دشمن (منافقین و غدار) سب سے خطرناک ہوتے ہیں۔
یہ جنگ بتاتی ہے کہ
اسلام صرف تلوار سے نہیں، بلکہ عقل، حکمت اور دعا سے جیتا جاتا ہے۔
قرآنی پیغام
“يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اذْكُرُوا نِعْمَتَ اللّٰهِ عَلَيْكُمْ إِذْ جَاءَتْكُمْ جُنُودٌ فَأَرْسَلْنَا عَلَيْهِمْ رِيحًا وَجُنُودًا لَّمْ تَرَوْهَا...”
(الاحزاب: 9)
“اے ایمان والو! اللہ کی نعمت یاد کرو جب لشکر تم پر چڑھ آئے، اور ہم نے ان پر آندھی اور وہ لشکر بھیجے جنہیں تم نے نہیں دیکھا۔”
اگلا حصہ (پارٹ 12)
اگلی قسط میں، اِن شاء اللہ:
صلح حدیبیہ کا تفصیلی ذکر ہوگا —
جہاں بظاہر ایک کمزور معاہدہ، دراصل اسلام کی سب سے بڑی فتح ثابت ہوا۔
سیرت النبی ﷺ (پارٹ1) پڑھنے کے لیے یہ لنک وزٹ کریں
سیرت النبی ﷺ (پارٹ2) پڑھنے کے لیے یہ لنک وزٹ کریں
سیرت النبی ﷺ (پارٹ3) پڑھنے کے لیے یہ لنک وزٹ کریں
سیرت النبی ﷺ (پارٹ4) پڑھنے کے لیے یہ لنک وزٹ کریں
سیرت النبی ﷺ (پارٹ5) پڑھنے کے لیے یہ لنک وزٹ کریں
سیرت النبی ﷺ (پارٹ6) پڑھنے کے لیے یہ لنک وزٹ کریں
سیرت النبی ﷺ (پارٹ7) پڑھنے کے لیے یہ لنک وزٹ کریں
سیرت النبی ﷺ (پارٹ8) پڑھنے کے لیے یہ لنک وزٹ کریں
سیرت النبی ﷺ (پارٹ9) پڑھنے کے لیے یہ لنک وزٹ کریں
سیرت النبی ﷺ (پارٹ10) پڑھنے کے لیے یہ لنک وزٹ کریں

0 تبصرے