سیرت النبی ﷺ کے اس حصے میں ہم صرف ان لمحات کا ذکر کرتے ہیں
جب نبی کریم ﷺ کا وصال امت پر وہ گھڑی آئی جس نے مدینہ منورہ کو غم کے بادلوں میں لپیٹ لیا یہ واقعہ امت کی تاریخ کا سب سے بڑا امتحان تھا نبی کریم ﷺ کی رحلت کے ساتھ ہی مسلمانوں پر ایک ایسا صدمہ ٹوٹا جس نے ہر دل کو لرزا دیا صحابہ کرام اپنے محبوب نبی کو کھونے کی کیفیت میں
بے قرار تھے مگر اسی صدمے میں امت کے لیے ایک بڑی ذمہ داری بھی چھپی تھی اس ذمہ داری کا تعلق قیادت کے انتخاب سے تھا جو اسلام کی حفاظت اور امت کے اتحاد کے لیے ضروری تھا نبی کریم ﷺ کی بیماری کے آخری ایام اس طرح گزرے کہ نبی ﷺ اکثر اوقات صحابہ کو نصیحت فرماتے دکھائی دیتے آخری وقت تک آپ ﷺ کا دل اپنی امت کے لیے دھڑکتا رہا
آپ ﷺ نے لوگوں کو نماز کی تاکید فرمائی عدل و انصاف کی یاد دہانی کرائی اور ایک دوسرے کے حقوق پورے کرنے کی نصیحت فرمائی بیماری کا درد بڑھتا گیا مگر آپ ﷺ کے چہرے پر سکون ہی سکون تھا گویا دنیا سے رخصت ہوتے ہوئے بھی آپ ﷺ کا دل امت کے بارے میں فکرمند تھا جب نبی کریم ﷺ کا آخری وقت قریب آیا تو اہل بیت اور قریبی صحابہ کے دل رو رہے تھے مگر ان کے قدم ڈگمگا نہیں رہے تھے
آپ ﷺ نے کسی کو اذیت میں نہیں چھوڑا بلکہ دین کی بنیادیں مکمل کر کے دنیا سے رخصت ہوئے آپ ﷺ نے فرمایا کہ میں نے تم تک پیغام پہنچا دیا میں نے اللہ کا دین مکمل کر دیا اب تم میرا پیغام آگے پہنچاتے رہنا اور دین پر ثابت قدم رہنا جب وصال کا لمحہ آیا تو آپ ﷺ سب سے بہتر حال میں اپنے رب کے حضور چلے گئے نبی ﷺ کے وصال کی خبر پتے کی پھڑپھڑاہٹ کی طرح مدینہ میں پھیل گئی
ہر طرف خاموشی چھا گئی ہر گھر میں رونا شروع ہو گیا یہاں تک کہ کچھ صحابہ صدمے سے سنبھل نہ سکے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے جذبات میں کہا کہ جس نے کہا نبیﷺ کا انتقال ہو گیا ہے میں اس کی تلوار سے گردن اڑا دوں گا وہ سمجھ نہ سکے کہ حقیقی طور پر وہ وقت آچکا ہے مدینہ کا حال اس وقت ایسا تھا جیسے کسی ماں کا جوان بیٹا اس کی بانہوں میں دم توڑ دے ہر دل ٹوٹ چکا تھا
اسی عالم میں حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ مسجد نبوی میں آئے انہوں نے نبی کریم کے مبارک چہرے سے چادر اٹھائی پیشانی کو چوما اور کہا کہ اے اللہ کے نبی آپ پاک تھے آپ پاک ہی رہے آپ نے جو پیغام دیا وہ مکمل کر دیا اس کے بعد وہ مسجد میں آئے اور صحابہ کو جمع کر کے فرمایا
اے لوگو جو محمد ﷺ
پر ایمان رکھتے ہیں انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ محمد ﷺ تو دنیا سے چلے گئے اور جو اللہ پر ایمان رکھتے ہیں وہ جان لیں کہ اللہ ہمیشہ زندہ ہے پھر انہوں نے قرآن کی آیت پڑھی کہ محمد تو ایک رسول ہیں اس سے پہلے بھی بہت سے رسول گزر چکے کیا اگر وہ وفات پا جائیں یا قتل کر دیے جائیں تو تم دین سے پھر جاؤ گے
حضرت عمر رضی اللہ عنہ پر یہ آیت بجلی کی طرح گری اور انہیں احساس ہوا کہ نبی ﷺ واقعی دنیا سے رخصت ہو چکے ہیں وہ رونے لگے اور صحابہ کو تسلی دی اب نبی کریم ﷺ کے جسم مبارک کے غسل کا مرحلہ آیا یہ کام پورے ادب اور محبت کے ساتھ ہونا تھا حضرت علی رضی اللہ عنہ نے یہ ذمہ داری نبھائی ان کے ساتھ خاندان کے چند افراد اور قریبی صحابہ تھے انہوں نے انتہائی احترام کے ساتھ غسل دیا
ان کے دل کانپ رہے تھے مگر ہاتھوں میں ادب اور محبت تھی غسل کے بعد کفن تیار کیا گیا یہ سب کام اس طرح کیے گئے جیسے کسی کو چھونے سے بھی ڈر لگتا ہو کہ کہیں بے ادبی نہ ہو جائے غسل اور کفن کے بعد نماز جنازہ کا مرحلہ آیا اور صحابہ نے ٹولیوں کی صورت میں آ کر نماز ادا کی ہر شخص رسول اللہ ﷺ کے لیے دعا کرتا آنسو چھلک جاتے صحابہ نے کبھی ایسا وقت نہیں دیکھا تھا دل بھاری تھے مگر قدم جمے ہوئے تھے کیونکہ وہ جانتے تھے کہ امت کو مضبوط رہنا ہے
اس کے بعد تدفین کا مرحلہ آیا نبی کریم ﷺ کی قبر اسی جگہ بنائی گئی جہاں آپ ﷺ کا حجرہ تھا اور جہاں آپ ﷺ کا انتقال ہوا تھا یہی وہ جگہ ہے جہاں آج بھی روضہ نبوی موجود ہے
نبی ﷺ کی تدفین کا منظر ایسا تھا کہ آج تک اس کا تصور بھی دل میں رقت پیدا کرتا ہے صحابہ قبر تیار کر رہے تھے کہیں کہیں سے سسکیوں کی آواز آ رہی تھی
کوئی ہاتھ سے آنسو پونچھتا کوئی گھر جا کر رو پڑتا کوئی زمین پر بیٹھ جاتا کوئی دیوار سے لگ کر سوچوں میں گم ہو جاتا مدینہ میں اس رات کسی کی نیند مکمل نہیں ہوئی اب اصل مسئلہ سامنے آیا کہ امت کی قیادت کون سنبھالے نبی کریم ﷺ نے اپنا جانشین نامزد نہیں کیا تھا لیکن اپنی زندگی میں بہت سے اشارے دے دیے تھے جو صحابہ کو سمجھانے کے لیے کافی تھے
جیسے کہ مسجد نبوی میں امامت کے لیے حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کو آگے کرنا ان کو نبی ﷺ کا رفیق خاص ہونا غار ثور میں ان کا ساتھ اور ہر فیصلہ میں ان کی موجودگی یہی وجہ تھی کہ زیادہ تر صحابہ سمجھتے تھے کہ امت کی بھلائی اسی میں ہے کہ حضرت ابو بکر کی قیادت کو قبول کیا جائے مدینہ میں اس موقع پر دو بڑے گروہوں میں بات چیت ضروری تھی ایک انصار اور دوسرے مہاجرین انصار کا خیال تھا کہ وہ مدینہ کے محافظ تھے
اور اسلام کی بنیاد کو انہوں نے سہارا دیا تھا اس لیے قیادت ان کے پاس ہونی چاہیے جبکہ مہاجرین کا کہنا تھا کہ نبی ﷺ قریش سے تھے اس لیے قیادت بھی قریش کے پاس ہونی چاہیے اس موقع پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ اور حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ نے بہت حکمت سے انصار کو سمجھایا کہ امت کی بھلائی اسی میں ہے کہ مہاجرین میں سے کسی کو خلیفہ بنایا جائے
حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے بڑی حکمت سے انصار کو منایا انہوں نے فرمایا کہ اے انصار تم ہمارے مددگار ہو اسلام کی بنیاد تم نے رکھی تم ہماری پشت ہو ہم تمہارے بغیر کچھ نہیں مگر قیادت وہ کرے جو نبی کی سیرت کے زیادہ قریب ہو انہوں نے حضرت عمر اور حضرت ابو عبیدہ کا نام بھی پیش کیا مگر دونوں نے انکار کر دیا اور کہا کہ امت کی قیادت کا حق ابو بکر کا ہے
بالآخر سب سے پہلے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے آگے بڑھ کر حضرت ابو بکر کی ہاتھ پر بیعت کی پھر دوسرے صحابہ نے بیعت کی اور یوں اسلام کی پہلی خلافت کا فیصلہ ہوا مدینہ میں بے چینی ختم ہوئی اور امت کا مستقبل محفوظ ہو گیا یہ فیصلہ امت کے اتحاد کا مرکز بنا اور یہ وہ لمحہ تھا جب مدینہ ایک نئے دور میں قدم رکھ رہا تھا
صحابہ نے سمجھ لیا کہ نبی ﷺ کے بعد امت کی رہنمائی اسی طرح ہوگی کہ قیادت کے لیے ایسا شخص چنا جائے جو علم ایمان تقوی اور تجربے میں سب سے آگے ہو اس طرح نبی کریم ﷺ کے وصال کے فورا بعد امت اپنے پہلے امتحان سے کامیابی کے ساتھ گزر گئی نہ کوئی انتشار ہوا نہ کوئی بغاوت نہ کوئی خانہ جنگی بلکہ سب نے ایک ساتھ ہو کر خلافت کا نظام کھڑا کیا یہ اسلام کی طاقت کا سب سے بڑا ثبوت تھا
یہ پورا دور ہمیں یہ سبق دیتا ہے کہ مسلمان اگر اپنے دین اپنی قیادت اور اپنے نظام کے اندر اتحاد رکھیں تو کوئی مشکل ان کے سامنے رکاوٹ نہیں بن سکتی اور نبی کریم ﷺ کے اس دنیا سے چلے جانے کے بعد بھی اسلام مضبوطی کے ساتھ کھڑا رہا اور آگے بڑھتا گیا
یہ حصہ نبی کریم ﷺ کی وصال سے لے کر خلافت کے پہلے فیصلے تک اگلے حصے میں ہم خلافت ابو بکر کے ابتدا کے مسائل ردہ کے فتنوں کے ابتدائی آثار اور قرآن کے تحفظ کے پہلا مرحلہ بیان کریں گے
سیرت النبی ﷺ (پارٹ1) پڑھنے کے لیے یہ لنک وزٹ کریں
سیرت النبی ﷺ (پارٹ2) پڑھنے کے لیے یہ لنک وزٹ کریں
سیرت النبی ﷺ (پارٹ3) پڑھنے کے لیے یہ لنک وزٹ کریں
سیرت النبی ﷺ (پارٹ4) پڑھنے کے لیے یہ لنک وزٹ کریں
سیرت النبی ﷺ (پارٹ5) پڑھنے کے لیے یہ لنک وزٹ کریں
سیرت النبی ﷺ (پارٹ6) پڑھنے کے لیے یہ لنک وزٹ کریں
سیرت النبی ﷺ (پارٹ7) پڑھنے کے لیے یہ لنک وزٹ کریں
سیرت النبی ﷺ (پارٹ8) پڑھنے کے لیے یہ لنک وزٹ کریں
سیرت النبی ﷺ (پارٹ9) پڑھنے کے لیے یہ لنک وزٹ کریں
سیرت النبی ﷺ (پارٹ10) پڑھنے کے لیے یہ لنک وزٹ کریں
سیرت النبی ﷺ (پارٹ11) پڑھنے کے لیے یہ لنک وزٹ کریں
سیرت النبی ﷺ (پارٹ12) پڑھنے کے لیے یہ لنک وزٹ کریں
سیرت النبی ﷺ (پارٹ13) پڑھنے کے لیے یہ لنک وزٹ کریں
سیرت النبی ﷺ (پارٹ14) پڑھنے کے لیے یہ لنک وزٹ کریں
سیرت النبی ﷺ (پارٹ15) پڑھنے کے لیے یہ لنک وزٹ کریں
سیرت النبی ﷺ (پارٹ16) پڑھنے کے لیے یہ لنک وزٹ کریں
سیرت النبی ﷺ (پارٹ17) پڑھنے کے لیے یہ لنک وزٹ کریں

0 تبصرے